قومی اتحاد: ڈاکٹر اللہ نظر کی دعوت:تحریر: جیئند بلوچ

1642

ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نا صرف یہ کہ بلوچستان میں پاکستانی ریاست کی جبری قبضے کے خلاف قومی آزادی کی خاطر لڑی جانے والے سب سے متحرک تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں بلکہ وہ تمام آزادی پسند سیاسی و مسلح قوتوں اور عام بلوچ مخلوق کے لیئے قابل احترام شخصیت شمار ہوتے ہیں۔

برسر زمین رہ کر وہ تمام ریاستی جبر کا براہ راست مشاہدہ اور سامنا کررہے ہیں۔ وقت و حالات کے تناظر میں آپ کا مشاہدہ قومی رہنمائی کے لئے زیادہ تر سوشل میڈیا پہ نظر آتا رہتا ہے وہ مختلف مسائل اور واقعات کے تناظر میں ٹویٹ کرتے رہتے ہیں۔

بلوچ قومی تحریک میں اتحاد و یگا نگت ہمیشہ سے ایک قومی خواہش رہی ہے جس کے پیچھے تمام بلوچ سیاسی و مسلح تنظیمیں اور افراد جستجو کرتے رہے ہیں۔

قبل از موجودہ انتشار جب تمام مسلح تحریکوں کے درمیان ہم آہنگی تھی ایک دوسرے کے سہارے اور بھروسے پر قومی قوت مجتمع کر کے قومی آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی تو بلوچ عوام کی اکثریت مطمئن اور پر امید تھی کہ جنگ دیر سہی نتیجہ خیز ضرور ہوگی اس زمانے ایک عام بلوچ کے گماں میں نہ تھا کہ یہ اتحاد ویگانگت زنگ آلود ہو کر انتشار اور بعد ازاں ایک دوسرے پر الزام تراشی حتی کہ مسلح تنظیموں کے درمیان ایک دوسرے پر حملے اور سرمچاروں کی آپسی شہادت تک جائے گی۔

صورتحال جب اس نتیجے تک پہنچی تب بلوچ عوام کی خواہشیں بھی انتشار کا شکار ہوگئیں جو خواب قومی اتحاد کے درمیان آزادی کی خاطر دیکھا جارہا تھا وہ چکنا چور ہوگیا۔ سوشل میڈیا سمیت اخبارات میں بلوچ قیادت کے خلاف ہرزہ سرائی، الزام تراشی اور مختلف القابات کا استعمال مزید مایوسی کا باعث بنتے گئے جس کی خاطر خواہ روک تھام کی کوششیں یا تو نہیں کی گئیں یا بار آور ثابت نہ ہوئیں اس لئے قیادت کی طرف سے عملی طور پر خاموشی کا سہارا لیاگیا۔

یہ وقت اور حالات کی نزاکت تھی یا حقیقتا بلوچ قیادت کی دور اندیشی کہ آہستہ آہستہ منتشر قوتیں آپس دوبارہ ملتے گئے،تلخیان دور ہوتی گئیں، رنجشیں ختم اور ایک دوسرے پر اعتبار کی فضاء بنتی گئی جس خاطر خواہ یا حوصلہ افزاء نتیجہ اس وقت شدت سے نظر آیا متحرک تریں مسلح تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ نے ریاستی زیر دست میڈیا کی جانبداری اور بلوچستان کی غلط تصویر کشی کے خلاف بیس روزہ الٹی میٹم کا اعلان کیا جس کے بعد مقبول مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی اور پھر یونائٹیڈ بلوچ آرمی نے اس کی تائید کی اس عمل کا بلوچ عوام پر انتہائی خوشگوار اثر پڑا اس کی بے حد پزیرائی ہوئی بلوچ عوام حتی کہ میڈیا مخالف مہم سے زیادہ قومی افواج کے درمیان ممکنہ اتحاد پر خوش نظر آئے۔

میڈیا کے خلاف مہم کا اعلان چونکہ بی ایل ایف نے پہل کرتے ہوئے کیا تھا جس میں باقی مسلح تنظیموں کو بھی اس میں شامل ہونے کی اپیل کی گئی تھی اس لئے اعلان اور اس پر حوصلہ افزاء یگانگت کے بعد  قومی رہنما ڈاکٹر اللہ نظر نے ایک تازہ ٹویٹ میں بلوچ قوتوں کو آپس میں اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے بلوچ تحریک کی از سر نو تنظیم سازی کے حوالے سے عام بلوچ کے خواہشات کی ترجمانی کی ہے جس کا اگر مثبت جواب آیا تو یقینا یہ عمل بلوچ قومی تحریک کو نا صرف منظم بنانے کا باعث بنے گا بلکہ قومی آزادی کی منزل کو قریب تر کرنے کا بھی باعث بنے گا۔

ڈاکٹر اللہ نظر کی جانب سے بلوچ قوتوں کو اتحاد کی دعوت ایک انقلابی قدم ہے کیوں کہ عالمی سطح پر منظم سپورٹ حاصل کرنے کا واحد زریعہ بھی آپس اتحاد میں مضمر ہے، اس کا بہتریں ادراک اللہ نظر جیسے مدبر رہنما نے ہی کیا ہے۔ یہ کوئی معمولی دعوت نہیں بلکہ ایک بھاری زمہ ادری کا احساس ہے یقینا اس دعوت کے پیچھے ڈاکٹر اللہ نظر نے تمام سیاسی و سماجی اور دیگر پہلوئوں پر غور کیا ہے تب جا کر انہوں نے یہ دعوت دی ہے۔ اس کے پیچھے بی ایل ایف جیسی منظم اور متحرک قومی تنظیم کی پالیسی بھی یقینا موجود ہے اس کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر اللہ نظر بی ایل ایف کے ساتھ قومی اتحاد کے حوالے ہر قابل قبول شرط پر آمادہ ہے۔

بلوچ عوام کی بھی خواہش ہے کہ تمام سیاسی و مسلح تنظیمیں اور آزادی کی جنگ میں خلوص دل سے شامل شخصیات ایک قدم آگے بڑھ کر ڈاکٹر اللہ نظر کی دعوت کا مثبت جواب دیں۔

ہمیں بہر حال یہ یقین ہے کہ تمام مسلح تنظیمیں بالخصوص بی ایل اے، بی آر اے، یو بی اے اور دیگر اس دعوت کا خوش گوار جواب دے کر بلوچ عوام کے خواہشات کو عملی جامہ پہنانے میں ڈاکٹر اللہ نظر کے سنگ آئینگے ورنہ تاریخ کے اس اہم ترین موڈ پر بھی اگر دیگر قائدین نے ڈاکٹر اللہ نظر کی طرح وقت و حالات کا ادراک نہ کیا تو اس کے نتائج نا صرف قومی تحریک کے لیئے نقصاندہ صورت میں سامنے آئینگے بلکہ بلوچ قومی شناخت و بقاء کے لیئے اس سے بڑھ کر تلخیوں کا باعث ہونگے جن کا آج ہمیں سامنا ہے۔