صحافی اور صحافت زنجیروں میں – برزکوہی بلوچ

883

 

کہنے اور سننے کی حد تک ضرور صحافت اور صحافت سے وابستہ لوگ، اس مقدس اور اہم پیشے سے تعلق رکھتے ہوئے اہم تو ہوتے ہیں، مگر جب صحافت میں ایمانداری، سچائی اور غیر جانبداری سے زیادہ صحافیوں کا پیٹ دو قدم آگے ہو اور صحافی حضرات جب خود ہی  ایک انسان، انسانیت دوست اور سچائ کا پیامبر ہونے کے بجائے عقیدوں، نظریات ریاست، بادشاہت، مذاہب، شخصیات، مفادات، لالچ یا خوف کے زنجیروں میں قید ہو تو پھر وہاں سچائی حقیقت پر مبنی غیر جانبدار نہیں رہ سکتا اور خبر سازی کا یہ ہنر صحافت میں شمار نہیں ہوتا بلکہ پھر یہ درباری بیانیہ نگاری بن جاتا ہے اور کسی مخصوص طبقے کے مخصوص مفادات کا نگہبان اور ترجمان ہوتا ہے۔

ایسی زرد صحافت اہم اور عظیم پیشہ  کہلائے جانے کا کبھی بھی مستحق نہیں رہتا بلکہ صحافت کی آڑ میں بزنس اور بینک بیلنس بنانے کا اچھا اور آسان زریعہ بن جاتا ہے کیونکہ صحافی کو سب سے پہلے صرف اور صرف انسان ہونا چاہیئےپھر وہ سچائی کے علمبردار بن سکتا ہے۔

اگر پاکستان یا خصوصا بلوچستان میں صحافیوں کے کردار کو لالچ اور خوف کے تناظر میں جانچیں تو صحافیوں کا کردار   دلالوں  کے کردار سے ذرا بھی مختلف نہیں ہوگا۔

گذستہ دنوں  دو بڑے اور متحرک  بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ترجمانوں گہرام بلوچ اور جیئند بلوچ کے میڈیا کے حوالے سے دو الگ الگ بیانات سامنے آئے، پڑھنے کے بعد سوچا دیر آید درست آید انہوں نے  بلوچستان کی تمام صورتحال حقائق اور حالات کی تصویر اور منظر کشی پیش کرتے ہوئے  اور صحافیوں کو صحافتی ذمہ داریوں کی احساس دلاتے ہوئے انھیں اپنے حقیقی فرائض اور ذمہ داریاں  ادا کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے آئیندہ بلوچوں کی آواز اور بلوچستان کے حالات کو اپنے قلم و کاغذ کے ذریعے دبانے یا غلط پیش کرنے سے باز رہنے کا کہا ہے اور کہا ہے کے زرد صحافت کے جاری رہنے کے  پاداش میں پھر تنظیموں کو مجبورا میڈیا کے خلاف احتجاج کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہوگا۔

کیا پھر احتجاج و بائیکاٹ سے میڈیا یا بلوچستان کے صحافی سدھرجائینگے یا اپنے فرائض حقیقی بنیادوں پر نبھائینگے؟ میرے خیال میں مشکل ہے، کیونکہ بلوچستان کا میڈیا دراصل میڈیا  کم اور ریاستی جھوٹ، پروپیگنڈہ اور موقف کی تشہیر کرنے کی مشینری زیادہ ہے۔ اسی طرح صحافی بھی دراصل صحافی کم اور ریاستی مخبر و ایجنٹ زیادہ ہیں۔ ریاستی مفادات کے تحفظ اور ذاتی مفادات کی خاطر دن رات سرگرم عمل ہیں۔ اس دلیل کے بنیاد پر یہ نہیں سدھرینگے۔ ہاں البتہ مضبوط اور موثر احتجاج کے ذریعے عالمی صحافی برادری کی توجہ مبذول کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

بلوچستان میں ایک حد تک نہیں بلکہ میڈیا اور صحافت کے عظیم پیشے کے ساتھ چند لوگ صحافیوں کی روپ میں چند روپوں کی خاطر زناہ بالجبر کررہے ہیں۔ اس حساس معمالے کا نوٹس لیا جائے اور بلوچ قوم میں یہ احساس شعور اور آگاہی پھیلانا چاہیئے کہ آئیندہ جو صحافی یا میڈیا سے تعلق رکھنے والا کوئ شخص اگر بلوچ سرزمین پر رہتے ہوئے یا بلوچ قوم سے تعلق رکھتے ہوئے اس کھٹن اور مشکل حالت میں بلوچ قوم کی تباہی اور نسل کشی کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے سے کترائے اور ظالم و سفاک ریاست کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے اور مکمل ریاست کی ترجمانی کرنے میں مشغول رہے تو پھر ایسے لوگوں کو بلوچ سرزمین پر رہنے کا کوئی اخلاقی حق حاصل  نہیں،  پھر وہ صحافت کے پیشے کے آڑ میں دراصل ریاستی فورسز کے اہلکار ہیں۔ وہ صرف اپنے ذاتی تحفظ اور آسانی کے ساتھ کام کو آگے بڑھانے کی خاطر صحافت کے مقدس چھتری تلے چھپے ہوئے  ہیں۔ ایسے کالے بھیڑیے  صحافی نہیں ہوتے ہیں ان کو صحافت اور صحافی کہنا اس مقدس پیشے کی بے حرمتی ہے۔

اس حساس اور اہم ایشو پر تمام آزادی پسند تنظیموں اور جماعتوں کو انتہائ سنجیدگی سے غور و فکر کرکے حکمت عملی کے ساتھ سب سے پہلے زرد صحافت کے خلاف بھر پور مہم چلانا ہوگا، خاص طور پر  مہذب دنیا اور بلوچ قوم کو مکمل آگاہی فراہم کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ذرد صحافت اور میڈیا کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے ہونگے۔ ان اقدامات سے پہلے یعنی آج سے سوشل میڈیا، پمفلٹنگ، وال چاکنگ وغیرہ اور سمیت مختلف ذراہ5ع سے زرصحافت درباری صحافت اور بلوچستان میں میڈیا کے سیاہ کارناموں کو خوب اجاگر کرنا ہوگا۔