بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے تنظیم کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ کی گمشدگی کو ایک سال کا عرصہ مکمل ہونے اور تاحال عدم بازیابی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ عالمی انصاف کے ادارے ریاستی بربریت اور سیاسی کارکنوں کے خلاف طاقت کے استعمال پر خاموش رہ کر اپنی حیثیت کو متنازعہ اور جانب دار بنا رہے ہیں۔ 24سالہ شبیر بلوچ بی ایس او آزاد کے لیڈر اور بی اے کا اسٹوڈنٹ ہے جسے 4اکتوبر2016کی صبح فورسز نے کیچ کے علاقے سے اغواء کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ تنظیم نے لاپتہ لیڈروں اور کارکنوں کی بازیابی کے لئے اقوا م متحدہ کے اداروں کو لیٹرز بھیجے، اُن سے مطالبات کیے لیکن اب تک اُن کی جانب سے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔پاکستانی عدلیہ پہلے سے ہی لاپتہ بلوچوں کے معاملات کو حل کرنے کے بجائے ان کیسوں کی طول دے رہی ہے، بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین پاکستانی انصاف کے اداروں سے مایوس ہو کر اب عالمی اداروں سے اس مسئلے کو حل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے خلاف ریاست کی جارحانہ کاروائیاں عالمی اخلاقیات اور اصولوں کے منافی ہیں، جن کے خلاف آواز اٹھانا ہر انسان کا حق ہے۔ بلوچستان میں سیاسی آزادیوں پر مکمل پابندی عائد کرکے پاکستانی فورسز اور ڈیتھ اسکواڈز سیاسی کارکنوں کو قتل اور اغواء کرتے ہیں۔ بی ایس او آزاد کے سابقہ چیئرمین زاہد بلوچ، وائس چیئرمین زاکر مجید، سمیع بلوچ، آفتاب، آصف قلندرانی، عمران قلندرانی اور بی این ایم کے رہنماء ڈاکٹر دین محمد، رمضان بلوچ، غفور بلوچ سیت سینکڑوں نوجوان سالوں سے غائب ہیں۔ ان تمام مغوی رہنماؤں کو فورسز کے باوردی اور سول کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے اٹھایا، لیکن طاقت ور پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ اس حوالے سے کچھ کہنے کو تیار نہیں۔ لاپتہ افراد کے ان خاندانوں کو روزانہ دھمکیاں موصول ہوتی ہیں کہ وہ احتجاج نہ کریں ۔ ان تمام صورت حال کے باوجود اگر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے جبری گمشدگی اور دوسرے ادارے خاموشی اختیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بلوچستان میں ہونے والی ریاستی بربریت کا خاموش حمایت کررہے ہیں۔
بی ایس او آزاد نے عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ بلوچستان میں سیاسی آزادیوں پر پابندی ہٹانے اور لاپتہ شبیر بلوچ سمیت تمام بلوچ سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے لئے آواز بلند کریں۔