سی پیک – بلوچستان کے لیے گیم چینجر یا گھاٹےکا سودا؟

508

تحریر: بلاول بلوچ

جب پاکستان بحیثیت ایک مملکت دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔ تو ریاست قلات ایک تاریخی حیثیت اور حقیقت رکھتے ہوئے اپنے جداگانہ قومی تشخص اور تاریخی وقار کے باوجود ایک نو مولود مملکت کے ساتھ کیسے الحاق کیا وہ قصہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔۔مگر اس وقت الحاق کے بعد بلوچوں کے ساتھ ایک روشن مستقبل کا وعدہ کیا گیا تھا ریاست قلات کا پاکستان میں شامل ہونے کے بعد قائداعظم نے بزات خود بہت سے مراعات اور ترقیاتی کاموں کا وعدہ کیا تھا۔ مگر وعدے وعدے ہی رہ گئے۔۔ پاکستان (وفاق) بلوچوں کے ساتھ کتنا مخلص ہے وہ الحاق کے پانچ سال بعد سوئی سے نکلنے والے گیس کے دریافت کے بعد ہی معلوم ہوا، پاکستان (وفاق) سوئی سے نکلنے والے گیس کو مری کے بلند و بالا پہاڑوں پر تو پہنچا سکا مگر ستر برس گزرنے کا بعد سوئی سے چند ہی کلو میٹر پر رہنے والی بلوچ ماں کو نہیں پتہ کہ سوئی گیس کس شے کا نام ہے۔

ستر برس گزرنے کے بعد اگر بلوچ کی قسمت میں کچھ آئی ہے تو 81 فیصد غربت، 70 فیصد ناخواندگی، چاغی کے ایٹمی دھماکوں کے بعد کینسر سمیت مختلف قسم کے جنم لینے والے لا علاج بیماریاں، مسخ شدہ لاشیں اور بہت کچھ۔۔۔بدقسمتی سے بلوچستان روز اول سے لے کر آج تک عالمی لالچی قوتوں کی زیر نظر رہا ہے۔ 1979 میں جب سویت یونین افغانستان میں براجمان ہوے تو وہ بلوچ قوم پرستوں کی پشت پناہی کرکے وہ بلوچستان کی گرم پانیوں تک پہنچنے کا خواب ہی دیکھ رہا تھا۔ سیلگ ہیری سن اپنی کتاب ان افغانستان شیڈو میں لکھتا ہے بلوچستان کی جنگ وہاں موجود قدرتی وسائل اور گرم پانی کے لیےہی لڑی جارہی ہے۔ اور یہ بات ایک عام بلوچ کو بھی ذہن نشین ہوچکا ہے کہ وفاقی حکومت ہو ہا ملٹری اسٹیبلشمنٹ ان کو بلوچ کی ترقی اور خوشحالی سے کوئی سروکار نہیں۔وہ اگر فکر مند ہیں تو وہاں کی کوئلہ یورینیم تیل گیس اور گرم پانی کے لیے ہی ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے کم آبادی اور توانائی کے ذرایع سے مالامال ہونے کے باوجود بھی پسماندہ تریں صوبہ ہے۔ کوئلہ اور گیس سے مرکزی حکومت بلوچستان کو مناسب معاوضہ دئیے بغیر فائدہ اٹھا رہی ہے۔ پاکستان میں 28 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجودہیں۔ 28 ٹریلین کیوبک فٹ میں سے 19 ٹریلین کیوبک فٹ گیس بلوچستان میں ہیں یعنی 68 فیصد گیس کے ذخائر بلوچستان میں ہیں مگر بدقسمتی سے بلوچستان کو 17 فیصدسے بھی کم گیس مل رہی ہے۔بلوچستان ملک کا غریب ترین مگر سب سے ذیادہ گیس پیدا کرنے والا صوبہ ہے۔۔

اسی طرح ریکوڈیک دنیا کا پانچواں بڑا سونے کا سائیٹ ہے۔ ٹی سی سی جیولوجسٹ کے مطابق ریکوڈیک میں 18 ملین ٹنز کوپر اور 32 ملین اونس سونا ہے۔ گیس کوئلہ یورینیم سونا کوپر وافر مقدار میں ہونے کے باوجود سب سے کم آبادی والا صوبہ میں ترقی تو دور کی بات وہاں کی باسیوں کے لیئے زندگی کے بنیادی سہولیات کیا بنیادی ضروریات تک میسر نہیں ہیں۔

آج کل ہر پاکستانی کی زبان میں سی پیک کا ہی چرچہ ہے۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک سی پیک ہی ٹرینڈ کر رہی ہے مگر ایک عام بلوچ یہ سی پیک سے بے خبر اپنے زندگی کےروایتی کاموں میں مشغول ہے، گویا اس کو باور ہو چکا ہے کہ درج بالا وسائل ان کو دو وقت کی روٹی فراہم نہ کر سکے تو سی پیک کونسا معجزہ کرے گا۔ حکومت بیروکریٹس عسکری قیادت سب یہی گن گا رہے ہیں کہ سی پیک بلوچستان کےلیے ایک فیٹ اور گیم چینجر ہوگا مگر بے چارہ بلوچ یہی سوچ رہا 1877 سے لے کر 1922 تک برٹش راج کا ریلوے نیٹ ورک جو بلوچستان کا بھی حصہ تھا اور ساوتھ ایشیاء کا سب سے بڑا ریلوے نیٹورک ہونے کا باوجود بھی بلوچستان کو معاشی طور پہ ایک آنے کا بھی فائدہ نہ دے سکا تو ایک روڈ کونسا اس کی 70 سالوں سے زنگ زدہ تقدیر کو بدلے گا۔

وفاقی اور عسکری قیادت بلوچوں کو جھوٹے خواب دیکھا کر ایک بار پھر ان کو دھوکا دینے کی کوششیں کر رہے ہیں کبھی کوئی باجوہ اپنے آپ کو بلوچی کہتا کبھی کسی اور قسم کا لولی پوپ دیا جاتا۔مگر سنجیدگی سے کوئی بھی بلوچ کی بہتری کے لیے نہیں سوچ رہا۔ بلوچ کا غصہ اس وقت زیادہ ہوتا جب شام میں آٹھ بجے کے ٹاک شوز میں سب سے لاشعور نام نہاد دانشور نشہ میں دھت ہو کہ یہ کہتا ہے کہ یہ جو بلوچی ہیں یہ انڈیا سے پیسہ لے کر سی پیک کو ناکام بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔لیکن ان کو یہ نہیں معلوم کے سی پیک کے نام پہ بلوچستان کو ایک بار پھر لوٹنے کا اچھا خاصہ انتظام ہوا ہے۔۔ گوادر میں رہنے والے پیاسے بلوچ کا وفاق کی نیت پہ شک اس وقت یقین میں بدل جاتا ہے جب وہ پورٹ میں کنٹینروں پہ لوڈ لاہور اورنج لائین ریلوے کی بوگیوں کو دیکھتا ہے۔۔اسلام آباد میں بیٹھ کر غداری کا سرٹیفیکٹ بانٹنے والے کو یہ معلوم نہیں کہ بلوچ اب باشعور ہوچکا ہے بلوچ کو معلوم ہے کہ گوادر میں واٹر پلانٹ کی مرمت ایک کھو کھلا اسٹیٹمنٹ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔کیونکہ واٹر پلانٹ کی مرمت کے لیے 700 ملین روپے وفاقی حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں لیکن 200 ارب ڈالر سے بننےوالی لاھور اورنج لائن آخری مراحل میں ہے۔

بلوچ کو سی پیک پہ کیوں تشویش ہے؟

میں نے اس حوالے سے کچھ حقائق ڈھونڈنے کی کوشش ہے۔ جو معلومات میں حاصل کرسکا میں ان کو شیر کر رہا ہوں۔ آپ ان کا مطالعہ کرنے کے بعد فیصلہ کر لیں کہ سی پیک بلوچ کے لیے ایک گیم چینجر ہے یا گھاٹے کا سودا ہے۔

(1) بلوچستان کے ساتھ پہلا مذاق اس وقت کیا گیا جب مغربی روٹ کو پس پشت ڈال کہ مشرقی روٹ کو پلان میں شامل کیا گیا۔

(2) پراجیکٹس کی تعدادوں میں ہیراپھیری:

سی پیک سےبلوچستان میں 16 سندھ میں 13 پنجاب 12 اور کے پی کے میں 8 پراجیکٹس بنیں گے۔۔ بظاہر تو یہی دکھانے کی کوشش ہو رہی کہ سب سے زیاد پراجیکٹس بلوچستان میں بن رہے ہیں لیکن یہ جان کر آپ کو حیرت ہی ہو گی کہ بلوچستان کے 16 پراجیکٹس 600 ملین ڈالر کے مالیت کے ہیں اور پنجاب کے 12 پراجیکٹس 13 بلین ڈالرز کے ہیں۔۔ پنجاب کے 12 پراجیکٹس میں سے ایک لاھور اورنج لائن ہے جو 200 ملین ڈالرز کی ہے۔جبکہ بلوچستان کے 16 پراجیکٹس میں سے جی ڈی اے کا اسپتال ہے جو پہلے 50 بیڈز پر مشتمل تھی اس میں 250 بیڈز کا آضافہ کرکے 300 بیڈز کا ہسپتال بنایا۔۔جس کی کل مالیت لاھوراورنج لائن کے ایک ٹرین کی قیمت سے بھی کم ہے۔

(3)توانائی کے پراجیکٹس:

سی پیک میں توانائی کے کل 12 پراجیکٹس شامل ہیں 12 میں سے 3 پراجیکٹس کے پی کے میں اور باقی سب پراجیکٹس سنٹرل پنجاب اور سندھ میں ہیں۔۔ بلوچستان میں ایک بھی توانائی کا پراجیکٹ نہیں ہے۔اب بلوچ کو تو صد فیصد یقین ہے کہ ان کا اپنا سوئی گیس ستر سال گزرنے کے بعد بھی ان کو نہیں مل رہا تو پنجاب کی بجلی اس کو کیسے پہنچا ئی جاے گی۔۔ بقول مبارک قاضی “تو دگر ء قصہ کنے منی وتی منی نہ انت”۔۔

بلوچستان اس وقت اپنے ہی کوئلے اور گیس سے 1200 میگا واٹ بجلی پیدا کررہی ہے جس سے بلوچستان کو بڑی مشکل سے 350 میگا واٹ مل رہی ہے باقی کراچی اور شکار پور میں سپلائی ہو ریی ہے۔۔ وفاقی حکومت ابھی یہ دعوی تو کر رہا کہ نیشنل گریڈ سے بلوچستان کو بجلی سپلائی کی جائی گی۔ لیکن آپ کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ نیشنل گریڈ سے بلوچستان کو بجلی سپلائی کرنے کے لئے کم از کم kv 500 کی ٹرانسمیشن لائن چاہیے۔ اس وقت پورے پاکستان میں 5000 کلو میٹر سے زیادہ 500 kv کے ٹرانسمیشن لائین اور کل 13 گریڈ اسٹیشن ہیں ۔ جن میں ایک بھی بلوچستان میں موجود نہیں ہے۔ نیشنل گریڈ سے چاہ کر بھی آپ بلوچستان کو بجلی سپلائی نہیں کرسکتے کیوں بلوچستان میں 500 kv کے ٹرانسمیشن لائن نہیں ہے۔ایک اندازےکے مطابق اگر بلوچستان میں 500 kv کے ٹرانسمیشن لائن بچھانے کا کام شروع کیا جاے تو اس کو مکمل ہونے میں بیس سے پچیس سال لگ سکتے ہیں۔

(4) ملازمت کے مواقع:

سی پیک کے محتلف پراجیکٹس سے صوبوں میں جو ملازمت کے مواقع پیدا ہوئے ان میں پنجاب سر فہرست ہیں ۔ ابھی تک لاھور اورنج لائن میں پندرہ ہزار ملازم بھرتی ہوئے ہیں۔ توانائی کے 12 پراجیکٹس میں سے بارہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی جو پنجاب اور سندھ کے صنعتوں میں تقسیم ہوگی جس سے پچاس ہزار سے زائد ملازمت کے مواقع پیدا ہونگے ان میں سے ایک بھی بلوچستان میں نہیں ہو گا۔۔ دوسری دلخراش بات ہہ ہے کہ بلوچستان میں روڈ کی تعمیر میں جو مزدور کام کررہے ہیں ان میں سے 95 فیصد کا تعلق پنجاب اور سندھ سے ہے ۔۔ بے چارہ بلوچ یہی مزدوری کےلیے خلیجی ممالک میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا۔۔

(5) پراجیکٹس کی نوعیت:

بلوچستان میں 600 ملین ڈالرز سے بننے والے پراجیکٹس بیشتر وفاق کے زیر انتظام رہینگے جیسا کہ گوادر پورٹ اور گودار ائیرپورٹ وغیرہ۔۔ ان پراجیکٹس میں سے جتنا ریوینو جنریٹ ہوگی وہ وفاق کے پاس جمع ہوگئی اور وفاق اس آمدنی کو آبادی کے حساب سے صوبوں میں تقسیم کرے گی۔۔ جبکہ اس کے برعکس دوسرے صوبوں کے پراجیکٹس کا اختیار اور انتظام صوبائی حکومتوں کے پاس رہے گا۔

(6) آخری اور اہم نقطہ:

مجموعی طور پر 52 بلین ڈالرز میں سے صرف 2۔1 بلین ڈالرز بلوچستان کو ملے گا۔۔ لیکن سی پیک کی کامیابی کے لیئے سب سے زیادہ بلوچستان کے وسائل استعمال ہورہے ہیں اور اس کے بدلے میں سب سے کم فائدہ بلوچستان کو ملے گا۔ 12 توانائی کے پراجیکٹس کے لیئے بلوچستان کا 43 فیصد کوئلہ استعمال ہو گا جبکہ سندھ کا 60 فیصد کے پی کے کا 5 فیصد اور پنجاب کا بھی 5 فیصد کوئلہ استعمال ہوگا۔۔مگر توانائی کا ایک پراجیکٹ بھی بلوچستان میں موجود نہیں ہے۔

اسی طرح سی پیک کے لیے بلوچستان کا سب سے زیادہ یعنی 50 فیصد زمین استعمال ہوگی، سندھ کا 30 فیصد کےپی کے کا 10 فیصد اور پنجاب کا بھی 10 فیصد زمین استعمال ہوگی۔

سی پیک کا سنٹرل پوائنٹ سمندر ہی ہے، تو سی پیک کے لیے بلوچستان کا 70 فیصد سمندر اور سندھ کا 30 فیصد سمندر استعمال ہوگی۔۔معدنیات میں بلوچستان کا 60 فیصد سندھ کا 20 فیصد کے پی کے کا 15 فیصد اور پنجاب کا 5 فیصد معدنیات استعمال ہوگی۔

اگر مجموعی طور پر پر دیکھا جائے بلوچستان کا سی پیک کے لیے کنٹری بیوشن 395 فیصد ہے جبکہ سندھ 240 فیصد کےپی کے 59 فیصد اور پنجاب 36 فیصد کنٹری بیوٹ کر رے گا۔ یعنی کنٹر بیوشن کے لحاظ سے بلوچستان سب سے آگے اور پنجاب سب سے پیچھے ہے۔ اگر آسان شماریات میں حساب نکالا جاے تو سی پیک میں سب سے زیادہ 60 فیصد وسائل بلوچستان کے استعمال ہونگے اور اس کے بدلے میں 5 فیصد فائدہ ملے گا۔جبکہ سندھ کے 20 فیصد وسائل استعمال ہونگے اور 25 فیصد فائدہ ملے گا، کے پی کے کا 10 فیصد وسائل استعمال ہونگے اور 10 فیصد فائدہ ملے گا اور پنجاب کا سب سے کم 10 فیصد وسائل استعمال ہونگے اور فائدہ سب صوبوں سے زیادہ 60 فیصد ملے گا۔

نوٹ:
کچھ ماہ قبل صدر پاکستان نے بلوچستان کو دورہ کیا تھا اور تنبیہ کیا تھا کہ بلوچ سی پیک کے حوالے سے احتیاط سے بات کریں۔ جناب صدر ہم میں سے کوئی بھی بلوچ ترقی مخالف نہیں ہے۔ ھم سب ایک پر امن معاشی طور پہ خوشحال ، سیاسی طور پہ استحکام بلوچستان کے متلاشی ہیں۔ کس بد بخت خو ترقی اور خوشحالی نہیں چاہیے۔۔ لیکن ترقی کے نام پہ جو بھیک کشکول میں رکھ کر دیا جا رہا شاید وہ کسی بھی با شعور بلوچ پہ گراں گزرے گا۔