ریاست پاکستان کی جھوٹ اور بلوچوں کی ذمہداری: تحریر برزکوہی

415

پاکستانی جنرل نیازی نے بنگالیوں کے بابت کہا تھا کہ چند مٹھی بھر باغی بنگالی بچے ہیں ان کو جلد کچل دینگے بنگلہ دیش میں مکمل امن قائم ہوگا پھر چند ہی دنوں بعد مٹھی بھر عناصر کو کچلنے کے بجائے 90 ہزار پاکستانی فوجی بنگالیوں کے سامنے سرنڈر ہوگئے اور اپنی پتلوں چھوڑکر آج تک میوزیم میں سجے ہوئیں ہیں۔

ہمیشہ قابض فوج اور اس کے زرخرید نمائندوں کا ایک ہی وطیرہ ہوتا ہے دنیا کے جس کونے میں ان کی نفسیات غالبا ایک جیسا ہوتا ہے جس کی بنیادی سوچ ایک تو غلط اندازہ اور دوسرا طاقت کا گمھنڈ ہوتا ہے باقیوں کو چھوڑ کر مقبوضہ بلوچستان کی کٹھ پتلی پاکستانی وزیراعلی ثناء اللہ زہری بھی اپنے قابض آقاوں کی اشاروں پر ناچتے ہوئے وہ بھی گذشتہ دنوں میڈیا میں کہتا ہے کہ بلوچستان میں پاکستان کے خلاف مزاحمت کا کمر توڑ چکے ہیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے سردار صاحب وہ کیسے ؟ ویسے قابض کے جہاں بھی جس مقام پر ناپاک قدموں کے نشانات ہونگے آپ سمجھ لیں وہاں قابض کے خلاف شدید نفرت اور مزاحمت کی سوچ اور عمل وجود رکھتا ہے آج آئے روز پورے بلوچستان میں صرف ایک علاقہ نہیں بلکہ ہر جگہ فوجی آپریشن اور بلوچ عوام کے خلاف پاکستانی ریاست کی جبر و بربریت اور نسل کشی 17 سالوں سے زور شور سے جاری ساری ہے وہ اور بات ہے کہ الیکٹرنک اور پرنٹ میڈیا مکمل پاکستانی کی خفیہ اداروں کے کنٹرول  میں ہے اور بلوچستان کے  حقیقی صورتحال سے چشم پوشی کررہے ہیں پھر بھی جب مزاحمت کی کمر ٹوٹ چکا ہے آئے دن فوجی آپریشن کی بڑھتی ہوئی شدت اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مزید فوجی چھاونیوں اور فوجی چوکیوں اور چیک پوسٹوں میں اضافہ اور ساتھ ساتھ فوجی نقل و حرکت اور رسد کےلئے تیزی کے ساتھ سڑکوں کی تعمیر کی کام کس حقیقت کی طرف اشارہ کردیتا ہے ؟

قومی جذبہ مزاحمتی سوچ و فکر اور نظریات سے حوصلے جنم لیتے ہیں اور وہ حوصلے ہی ہونگے جو لوگوں کو تحریک اور مزاحمتی عمل کی جانب راغب کردیتا ہے جب لوگوں کی حوصلے تذبذب اور کمزوری کا شکار ہو تو پھر قومی آزادی اور قومی مزاحمت کی سوچ صرف خواہش ہی ہوگا مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوگا جس کا ہونا نہ ہونا کوئی فائدہ نہیں ہے تو قابض کی سب سے بڑا کوشش ہمیشہ یہی ہوتا کہ وہ جھوٹے اور منفی پروپیگنڈے کے زریعے عوام کی حوصلوں پر قدغن لگانا یعنی کاونٹر انسرجنسی پالیسی کے تحت تحریک کے خلاف زہرافشانی کرنا کہ مزاحمت کی کمر توڑ دیا ہے یا صفایا کردیا ہے۔

بلوچستان میں اب مکمل فورسز کا رٹ قائم ہوچکا وغیرہ وغیرہ اب مزاحمتی عمل کے ساتھ پاکستانی ریاست اور اس کے ثناء اللہ ذہری جیسے کٹھ پتلیوں کی جانب سے تحریک کے خلاف جھوٹی اور منفی پروپیگنڈوں کو کاونٹر کرنے اور بلوچ عوام میں اصل حقائق کے حوالے سے شعور و آگاہی پھیلانے کی خاطر باقاعدہ منصوبہ بندی اور تیزی کے ساتھ حکمت عملی مرتب کرکے سرگرم عمل ہونا ہوگا۔ جب تک انسرجنسی کے ساتھ ساتھ دشمن کی کاونٹر انسرجنسی پالیسی کے مدمقابل انتہائی ذمہدارانہ اور سنجیدہ طرز انداز حکمت عملی نہیں ہوگا تو پھر قابض قوتوں کی پروپیگنڈہ گوکہ مکمل جھوٹ پر مبنی ہو لیکن پھر بھی وہ بلوچ عوام کے ذہینوں پر منفی طور پراثر انداز ہوگا جس کے نتیجے میں لوگوں کی حوصلے تذبذب کے شکار ہونگے جو تحریک کی روح کےلئے انتہائی نقصاندہ فعل ہوگا۔ صرف یہ کہنے کی حد تک کہ دشمن جھوٹ بولتا ہے پروپیگنڈہ کرتا ہے کافی نہیں ہے بلکہ عام بلوچ عوام کےلئے ٹھوس دلیل اور منطق پیش کرنا ہوگا