تصریحِ التوا
نودبندگ بلوچ
عرصہ گذرا صفحات میلے کیئے ہوئے، اب کے دوبارہ قلم اٹھاکر منتشر خیالات پرنوں پر بکھیرنے کا سوچوں تو یہ خوف کھائی جارہی ہے کہ بلوچ سیاست کی نظر کے ان تنگ گلیوں سے اپنی ہی تردید کیئے بغیر کیسے گذروں۔ سیاسی تقاضوں کے مختلف ترغیبات میں بھی پھنسا سا ہوں کہ سچا انقلابی و جہدکار اپنے نظریات پر اٹل رہ کر بلا چوں چرا اتباع کا اہتمام کرتا ہے، تانکہ تلوار گردن یا منزل پیر نا چومے یا پھر حقیقی انقلابی و جہدکار وقت کے بہاو کو جیوت جان کر اسکے ساتھ، پھلتا، بڑھتا اور بدلتا رہتا ہے؟ اب ہر روز ایک تجربہ، ایک انکشاف، ایک نئی سیکھ اور ایک نیا سورج لیکر آتا ہے۔ انکے اثرات شعور پر نا پڑیں یہ ممکن ہی نہیں اور اثر زبان و بیان اور کرداروعمل میں تغیر پیدا نا کریں، یہ بھی کہاں ممکن۔ اب بات آکر تبدیلی اور استقامت کے رجعت و جدت پر ہی آکر رکے گی۔
استقامت پیچھے ہٹنے سے انکار بنی تو جدت اور گر آگے بڑھنے سے روکے رکھی تو رجعت۔ تبدیلی آگے کی سمت تو جدت و ترقی پسندی، گر تبدیلی پیچھے پلٹ کر چلنے کی ہوئی تو رجعت پسندی۔ اب سیاسی کارکن ماضی کا گانٹھ سر پر اٹھائے حال کے پگڈنڈیوں سے گذر کر ایک روشن مستقبل تک پہنچنے کا مسافر ہے۔ بہرکیف جب تک رخ درست ہے اور آگے کے سمت چلتے ہی جارہا ہے، تو رستے وہ اپنے شعور کے بتدریج سطحوں کے مطابقت سے ہی چنتا جائے گا۔ کیا اس کی بھی بھلا تردید، کہ بلوچ وطن کی خشک مٹی کو خون سے تر کرنے والے کئی نوجوانوں کی زندگیوں میں ” پاک سر زمین“ پر مستعدی سے کھڑے ہوکر روز سننے کا بھی مرحلہ آیا، بھلا انکی تبدیلی کیا کہیئے؟ وہ جو بدلے وہ وطن کے ہوئے اور نا بدلنے والا جم غفیر کہیں رینگتے نظر آتی ہے۔
قلم پڑی رہے تو زنگ آلود ہو جاتی ہے، جب دوبارہ صفحوں کے ماتھے پر رگڑو تو پھر صرف سیاہی ہی نہیں بلکہ زنگ بھی اگلتی ہے۔ کوشش کررہا ہوں کہ اگلنے کیلئے بیتاب زنگ کو بہنے سے روکے رکھ کر بڑھوں، لیکن یہ بھی تو موزوں نہیں کہ دوبارہ لکھنے سے پہلے اس وقفے کی کوئی توجیح یا وضاحت نا دوں۔ کئی مہربان خاموشی پر پوچھتے اور ٹوکتے رہے۔ سمجھ نہیں آیا کیا وضاحت دی جائے، پھر جواب دینا ہی چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں کہ قلم جب چلتی رہے تو کاٹتی جاتی ہے، ہم نے زور آزمائی سیاسی تنقید نگاری جیسے حساس موضوع پر کی تو یہاں پھر قلم ایک طرف نہیں، دونوں طرف ہی کاٹتی ہے۔ بس مہربان کٹ گیا تھا۔
لکھنے پر مزاحمت تو شروع سے ہی تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتی گئی۔ حالت یہاں تک پہنچا کہ ہر لکھے کو ہر کوئی خود پر ہی سمجھا۔ وہ بھی جو موضوعِ بحث تک نا تھے۔ اس پر ایک مہربان سنگت ٹوک کر بولا کہ اب بس کرلو، بن کچھ نہیں رہا بس بگڑتا ہی جارہا ہے، تو بہتر ہے کہ بگاڑسے ہاتھ کھینچ لو۔ اب تمہارا ہاتھ ڈوریوں کے ایک ایسے گنجلک گانٹھ میں ہے جس ڈوری کو کھینچو گے گانٹھ مزید بگڑے گی۔ ویسے بھی کافی وقت سے احساس ہورہا تھا کہ باتیں ہوچکیں، معلوم نہیں غلط یا صحیح لیکن مزید بس خود کو دہرا رہا ہوں، اوپر سے یہ آفت کے بس پھسلے ہی چلے جارہے تھے، تھوڑا رک کر خود سے حجت کا ڈھب نہیں ہوپارہا تھا۔
اس بیچ گھر کے اندر سے بھی پتھر پڑنے لگے، اوپر تحریریں بھی آتی گئیں، کچھ برساتی مینڈکوں کا واویلا بھی اشارتاً مچ رہا تھا۔ خاطر میں آئی کے جواب لکھ بیٹھوں۔ جواب تو ہر لفظ کا تھا لیکن نوبت ظالم یہ تھی کہ اپنا ہاتھ اور اپنا منہ تھا۔ جتنا زور سے اپنے منہ پر مکا مارتا چوٹ خود کو ہی لگتی۔ ہاتھ جیتے یا منہ تکلیف خود کو ہی ہوتی۔ اب ایسی جنگ بھلا کیا لڑنی جسے جیتو بھی تو ہار تمہاری، ہار گئے تو وہ ویسے ہی تمہاری۔ تبھی خاموشی کی مجبور عبادت اختیار کرکے عبادت گذار ہوگئے۔
لو جی، خانہ پری کرلیا۔ ایک نا قابلِ قبول اور مبہم سی وضاحت دے دی، اب آگے بڑھ سکتا ہوں۔ امید ہے اس سے زیادہ تفصیل اور اس سے زیادہ مشرح وضاحت کبھی دینا نا پڑے، ورنہ بے وجوہ اپنا ہاتھ اور اپنا ہی گریبان۔ اتنا سنا تھا کہ ہر عمل و نتیجے کو تنقیدی نظر سے دیکھو اور اسکی علت سمجھو۔ یہ بد بخت بات ذہن پر ایسی نقش ہوئی کے فطرت بن گئی، فطرت تو بدلنے سے رہی جو بلاشبہ دہرے گی لیکن محبت کے سوا والے غموں پر بھی قصد رہےگی کہ اب محض تنقید کے پتھر پر سر نا ماروں دوسرے معاملات بھی قلمبند ہوں۔
خود وضاحتی کے اس بے لذت اور مانع سبیل سے ویسے ہی گزر رہا ہوں، تو ذرا سا سینہ کوبی اور کرلوں۔ سیاسی کارکن ہوں لکھاری نہیں، لکھنا ہنر نہیں ہے محض ضرورت کا پیداوار ہے، لہٰذا غلطی اور سیکھنے والے عمل سے انکاری نہیں۔ ایقان بلوچ کی آزادی ہے، اس ایقان کے مالکوں کے اس قبیل سے ذہنی ناطہ جوڑتا ہوں، جو ایک قوی قومی اجتماعی قوت کے تشکیل کے اہتمام کا جتن کرتے ہیں اور جس کے سامنے شخصیت پرستی، جماعت پرستی، ذات پرستی اور جمہوری و غیر جمہوری سیاسی آمریت کو سنگِ راہ سمجھتے ہیں۔ کسی سے خانگی تخالف نہیں، لکھا یا کیا ہر عمل اسی مراد کے نسبت سے رہا ہے اور ابھی تک ہے، گو طریق و باٹ وقت و حالات کے ساتھ تغیر پاتے رہیں گے، لہٰذا اسی تناظر میں پرکھے جانے کا طلبگار ہوں ۔ اسی تناظر کے تحت تعمیر ہو یا تقسیم، صفت ہو یا تنقید، موانست ہو یا خصومت موجود عمل سے قطع نظر ماحصل ہی اہمیت کا حامل ہے۔
اضطراب محض یہ نہیں کہ ایک قبضے کے اندر ہیں اور اسکے دوام کے خاطر استعمال ہونے والے قوت کے نیچے پس رہے ہیں اور ہم سے بہتر بنائے گئے چالوں سے مات کھاکر مار کھا رہے ہیں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ قوم کا جنہوں نے بِیڑہ اٹھایا انکی ترجیحاتِ اولین حالات سے ہمسری نہیں کررہے۔ جب ترجیح سرِ دار ہونے کے بجائے سَردار ہونا ہو تو میدان، دشمن اور مخالف کا چناو بھی مختلف ہوتا ہے اور قوت، وقت و توانائی بھی مختلف امور پر خرچ ہوتے ہیں۔ یہی تو بلوچ کا نوحہ ہے، لیکن ہر طرف ثناءخواں ہی دِکھ رہے ہیں، نوحہ خواں کوئی نہیں۔ اسی اضطراب سے مجبور آکر نوحہ خوانی کا مَن ہے، نوحہ کردی میں کلیجہ منہ کو آجائے پر کچھ ٹھنڈک تو پہنچے۔
قوم کے ساربان، جوایک قلیل تعداد میں ہیں اور منتشر بھی ہیں اوپر سر پر ڈنڈے بھی برس رہے ہیں، پھر بھی ترجیحات و حقائق سے بے نیازگی دیکھو تو شاہ ظفر اور نیرو تک مات کھاجائیں۔ پھر بھی سارا زور ذات کو جماعت، خودخیالی کو نظم و ضبط، حلقہ یاراں و فرمانبرداراں کو ادارہ منوانے پر خرچ ہے اور اس پر درس بھی وفاداری کا اور اس وفاداری کے صحت پر شک کرنے پر درباری مورخ ” نمک حرام“ لکھے۔ ان رموز سے مراد اس جانب توجہ دلانا ہے کہ تبھی تو آج تک ہم بدبخت منتشر گروہ اپنا ایک بھی مسئلہ حل نہیں کرسکے۔ ان گدی نشینوں کے بیچ تقسیم در تقسیم، مسئلوں در مسئلوں کی ڈوری شیطان کی آنت کی طرح کھنچتی ہی چلی جارہی ہے۔ اوپر سے ہر کوئی اپنی ناہنجاریوں کو چھپانے قوم کی آنکھیں بند چپکائے رکھنے کیلئے مشروط و غیر مشروط اتحادوں کی چپچپے خوشخبریاں آنکھوں پر ملیں۔
بات کھنچتی چلی گئی، کہنے کا مقصد مسئلے اندرونی و بیرونی دونوں ہیں، دشمن ہو یا پھر اندرونی نالائقیاں دونوں توجے کا طلبگار ہیں۔ دونوں پر لکھا اور بولا جانا چاہیئے۔ کوئی مسئلہ تشنہ لب چُھوٹا تو پھر ہمیں ہی پی جائے گا۔ یہ تحریر بس علتِ غیر حاضری کی رسمی اور بے معنی تاویل کی کوشش تھی۔ آگے کوشش ہوگی تفصیلاً ان تمام مسائل کو سلسلہ وار قلمبند کروں۔
زندگی کی کٹن راہوں میں بہت سے کاپلے بچڑجاتے ہیں کاروان ٹھرجاتے ہیں ساربان اپنے اونٹ کی حفاظت میں دن رات ایک کرتے ہیں کہ راستے میں تک نہ جائیں اور کاروان اپنے منزل تک پھونچ جائیں اگر ساربان تک حارکر بیٹ جائیں منزل دورکی بات ہے کاروان ایک قدم بھی نہیں چل سکتے ہیں کٹن راہوں میں ہر مشکل آتے ہیں