بی ایچ آر او کا نواز عطاء، ڈاکٹر اللہ نزر کی اہلیہ اور اسلم بلوچ کے ہمشیرہ سمیت دیگر کے اغوا کیخلاف مظاہرہ

386

بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیش کی جانب سے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور تنظیم کے سیکریٹری اطلاعات نواز عطاء سمیت آٹھ کمسن طالب علموں کو کراچی سے لاپتہ کرنے، گذشتہ روز ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کی اہلیہ و بچی سمیت ان کے ہمراہ دو خواتین اور ان کے بچوں کو لاپتہ کرنے اور گذشتہ روز ہی کوئٹہ میں اسلم بلوچ کے ہمشیرہ کو اس چار بچوں و کزن کے ہمراہ گرفتار کرکے لاپتہ کرنے کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا.

مظاہرے میں بڑی تعداد میں خواتین، بچوں اور نوجوانوں نے شرکت کی، مظاہرین نے خواتین و بچوں کے جبری گمشدگیوں کے خلاف پلے کارڈ اٹھائے رکھے تھے اور جبری گمشدگیوں کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کیا۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے رہنماؤں نے کہاکہ 28اکتوبر رات تین بجے کے وقت کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے انفارمیشن سیکرٹری نواز عطاء بلوچ اور اس کے رشتہ داروں کے گھروں پر سیکیورٹی فورسز کے باوردی اورسادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے چھاپہ مار کر آٹھ کمسن بچوں سمیت نواز کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا اور گھر میں موجود خواتین کو شدید تشدد کا نشانہ بناکر زخمی کردیا۔  نواز عطاء بلوچ ایک ہیومین رائٹس ایکٹوسٹ اور انٹر نیشنل ریلیشنز کا ایک طالبعلم ہے۔ اس کی اغواء نما گرفتاری کسی بھی حوالے اسے قانونی اور قابلِ جواز نہیں ہے۔نواز بلوچ خود مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لئے متحرک کارکن ہیں لیکن آج انہیں گرفتار کرکے گمشدہ کردیا گیا ہے۔ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن ایک غیر سیاسی تنظیم ہے، اس تنظیم کا کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے لئے بھی زمین تنگ کی جارہی ہے۔ نواز بلوچ کا اغواء اور اس کی گمشدگی کسی صورت قابلِ قبول نہیں، ہم سیکیورٹی کے اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نواز بلوچ کو منظر عام پر لے آئیں اس کے ساتھ ہی گھر میں موجود کمسن بچوں کو اغواء کرکے لاپتہ کرناقابلِ مذمت و غیر انسانی عمل ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں بھی فوراََ بازیاب کیا جائے۔

بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے رہنماؤں نے مزید کہا کہ گذشتہ روز کوئٹہ میں بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کے اہلیہ و بچی سمیت ان کے ہمراہ دو خواتین اور ان کے کمسن بچوں کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔جبکہ کوئٹہ میں ہی گذشتہ روز ایک اور واقعہ میں اسلم بلوچ کے ہمشیرہ کو اس کے چار بچوں، ایک بھتیجا اور ایک کزن سمیت گھر سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔ واضح رہے کہ سیکورٹی اداروں کی جانب سے بلوچستان کے جنگ زدہ علاقوں میں سیاسی رہنماؤں کے خاندان کو نشانہ بنانا، خواتین و بچوں اغواہ کرکے لاپتہ اور ان کو قتل کرنا معمول ہے لیکن حالیہ کراچی اور کوئٹہ میں رونما ہونے والے واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاستی سیکورٹی ادارے سیاسی انتقام میں خواتین وکمسن بچوں کو گرفتار کرکے لاپتہ کررہے ہیں جو کہ خود پاکستان کے آئین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بہت زیادہ خراب ہے لیکن خواتین و کمسن بچوں کی گشدگیوں سے صورتحال مزید خراب ہوتی جائیگی جبکہ ریاستی سیکورٹی ادارے بلوچستان میں ازخود انسانی حقوق کے صورتحال کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ بی ایچ آر او کے رہنماؤ ں نے آخر میں کہا کہ انسانی حقوق کے کارکنان، کمسن طلباء، خواتین و کمسن بچیوں کو گرفتار کرکے لاپتہ کرنا بلوچستان میں انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کو واضح کرتی ہے ہم اس مظاہرے کے توسط سے ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان، ایشین ہیومین رائٹس کمیشن سمیت تمام انسانی حقوق کے اداروں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور تمام انسان دوستوں سے یہی اپیل کرتے ہیں کہ وہ نواز بلوچ سمیت خواتین و کمسن بچوں کی گمشدگی کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند کریں۔ہم سندھ حکومت، بلوچستان حکومت اور وفاقی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نواز بلوچ سمیت تمام خواتین و کمسن بچوں کو فوری طور پر بازیا ب کیا جا ئے اگر ان کو فوری طور پر بازیاب نہیں کیا گیا تو ہم اپنے احتجاج کے دائرہ کار کو وسعت دیں گے۔

علاوہ ازیں آج کراچی پریس کلب کے باہر بھی تیسرے روز بھی بی ایچ آر او کی علامتی بھوک ہڑتال جاری رہی، بھوک ہڑتالی کیمپ میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کرکے مطالبہ کیا کہ مغوی بچوں کو فوری بازیاب کیا جائے۔ خرم علی نے بی ایچ آر او کی کیمپ میں آکر ہمدردی کا اظہار کیا اور سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ 8سالہ بچہ آفتاب یوسف سمیت دیگر کم سن نوجوانوں کی فوری بازیابی کے لئے کردار ادا کریں۔ واضح رہے کہ بی ایچ آر او نے تنظیم کے انفارمیشن سیکرٹری نواز عطاء کی جبری گمشدگی کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر غیر معینہ مدت تک کے لئے بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، آج تیسرے روز بھی احتجاجی کیمپ جاری رہی۔