بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے پنجگور کے علاقے گچک میں درجنوں نہتے لوگوں کی بغیر وارنٹ کے گرفتاری اور گمشدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ رکنے کے بجائے ہر گزرتے دن شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ آپریشنوں کے دوران سکیورٹی فورسز کے اہلکار چادر و چار دیواری کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے درجنوں لوگوں کو گرفتار کرکے لے جاتے ہیں، جہاں انہیں عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اس طرح کی کاروائیوں سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کی متوازی حکومت قائم ہے جو کہ مروجہ عدالتی نظام اور دوسرے قانونی ضابطوں کی پیروی کرنے کے بجائے غیر روایتی طریقے سے لوگوں کو اغواء کرتی ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی وسیع اختیارات بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کو خطرناک حد تک سنگین بنا چکے ہیں، لیکن صورت حال کی سنگینی کا ادراک اب بھی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے نہیں کیا جارہا ہے جو کہ آئندہ وقت میں مزید خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے کہا کہ گزشتہ کئی دنوں سے پنجگور کے علاقے گچک میں وقفے وقفے سے چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ پانچ دنوں کے دوران فورسز نے ایک ہی خاندان کے پانچ سگے بھائیوں سمیت دو درجن سے زائد افراد کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے۔ ان میں سے چند کی شناخت زاہد ولد شاہداد، عیسٰی ولد لشکر، عطاء ولد جورک، مزار ولد میر خان،کریم ولد میر خان، حسین بخش ولد میر خان، پیر جان ولد میر خان، بریان ولد میر خان، واحد بخش ولد جمعہ،شعیب ولد روشن، عبید ولد خدا بخش اورخیال ولد مبارک کے نام سے ہوگئی ہے۔
بی ایچ آر او کے ترجمان نے کہا کہ فورسز جس علاقے میں کاروائی کے لئے جاتے ہیں وہاں کے تمام مردوں، بشمول بزرگوں و نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار کر لیتے ہیں۔نوجوانوں و بزرگوں کی عزت نفس مجروح کرنا اور چادر و چاردیواری کے تقدس کی پامالی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں جو کہ فورسز کے ہاتھوں روزانہ سرزد ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کی زمہ داری ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں، حراستی قتل اور دوسرے واقعات کی تحقیقات کے لئے فیکٹ فائنڈنگ مشن بلوچستان میں بھیج دے، تاکہ اقوام متحدہ کے رکن ملک کی فورسز کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے۔