گذشتہ دنوں خضدار میں ایک نوجوان حسن مردوئی کا کینسر سے تنگ آکر خودکشی کرنے نے بلوچستان میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں روز افزوں ہوشربا اضافے پر ایک بار پھر سے سنجیدہ سوال اٹھایا ہے اور اس بابت تشخیص و علاج کے سہولیات نا ہونے نے بہت سے خدشات جنم دیئے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ کوئی بلوچ فرزند کینسر سے جنگ ہار گیا ۔ دنیا کے امیر ترین خطوں میں شمار ہونے والے پورے بلوچستان میں ابتک کینسر کا کوئی باقاعدہ ہسپتال موجود نہیں ۔ جس کی وجہ سے اول تو تشخیص بہت دیر سے ہوتی ہے اور گر تشخیص ہو بھی جائے تو علاج کیلئے زیادہ تر مریضوں کو کراچی کا رخ کرنا پڑتا ہے ، جہاں آغا خان جیسے مہنگے ہسپتالوں کے فیس اور علاج و معالجے کے اخراجات غریبوں کی حاجت سے باہر ہوتے ہیں ۔
بلوچستان جیسے جنگ زدہ اور غربت سے بری طرح متاثر خطے میں کینسر کے مریضوں کے تمام کوائف جمع کرنا اور درست اعداد و شمار جاننا قریباً نا ممکن ہے ۔ اس حوالے سے جو بھی کوائف و تعداد موجود ہیں وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔ بلوچستان ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بلوچستان میڈیکل سینٹر کے کینسر یونٹ میں 35000 کینسر کے مریض زیر علاج ہیں۔ اسی طرح CENAR کوئٹہ کے اعدادو شمار کے مطابق 1998 سے 2009 تک وہاں 12022 کینسر کے کیسز جمع ہوئے ہیں ۔
یہ حقیقی اعدادو شمار کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں کیونکہ بلوچستان میں کینسر کے زیادہ تر مریض کراچی کا رخ کرتے ہیں کیونکہ اول تو پورے بلوچستان میں کوئی کینسر کا ہسپتا ل ہے ہی نہیں اور کوئٹہ میں موجود سہولت انتہائی ناکافی اور ناکارہ ہے ۔ اس سے بھی بڑی وجہ یہ ہے کہ انتہائی غربت کی کی وجہ سے بلوچستان میں زیادہ تر کینسر کے مریض کبھی ہسپتالوں کا رخ ہی نہیں کرسکتے اور بہت سے تو بنا تشخیص کے ہی کینسر کے ہاتھوں اذیت کے زندگی گذار کر خاموشی سے جہانِ فانی سے کوچ کرجاتے ہیں ۔
بلوچستان میں کینسر جس تیزی سے پھیل رہا ہے اسکی بنیادی وجہ بلوچستان میں پاکستان کے جوھری ہتھیاروں کے تجربات اور زیر زمین کیمیائی ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی ہے ۔ جن کی تابکاری کی وجہ سے ملحقہ علاقوں میں نا صرف کینسر بلکہ کئی جلدی امراض بھی پھیل رہے ہیں۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ روان تابکاری کینسر پیدا کرنے کا ایک بہت بڑی وجہ ہے ۔ روان تابکاری ایٹم کے اندر کے ذرات یعنی پروٹون ، نیوٹرون اور الیکٹرون اور برقی مقناطیسی لہروں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ان تابکاریوں میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ جب وہ جوھر سے ٹکراتے ہیں تو پھر انہیں سالموں میں تبدیل کردیتے ہیں ۔
دنیا میں زیادہ تر لوگ کم یا زیادہ ، قدرتی یا مصنوعی تابکار لہروں کے زیر اثر ہوتے ہیں جس کا انحصار خطے پر ہے لیکن جب اس رواں تابکاری کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ انسان کے جسم کے متاثر کرتا ہے ۔ جو مختلف بیماریوں سمیت موت کا سبب بن جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ اگر یہ کم شدت میں بھی ہو لیکن یہ مسلسل انسانی جسم کو متاثر کررہا ہو تو پھر یہ کینسر کا سبب بنتا ہے کیونکہ یہ انسانی ڈی این اے کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے خاص طور پر بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جن کی جسمانی نشونما اب تک جاری ہوتی ہے ۔
جوھری پلانٹس ، ٹیسٹ سائٹس اور جوھری ہتھیاروں کے ذخائر ایسی تابکاری پھیلانے کی ایک بڑی وجہ ہیں ۔ کیمیائی ہتھیاروں کے فضلا جب سڑنا یا ٹوٹنا شروع ہوجاتے ہیں تو پھر انکی توانائی فضا ءمیں تحلیل ہوتی جاتی ہے ، انسانی جسم جب ایسے ماحول میں آشکار ہوتی ہے ، اس میں کینسر پیدا ہونے کی گنجائش کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔ یہ تابکاری انسانی جسم کے خلیات کو مارنا شروع کرتا ہے یا پھر تبدیل کرنا شروع کرتی ہے ۔ اگر انکا بروقت علاج نا ہو تو پھر یہ کینسر کا شکل اختیار کردیتی ہیں ۔
بلوچستان میں ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ 1998 میں پاکستانی ایٹمی تجربات کے بعد چاغی اور ملحقہ علاقوں بلکہ پورے ڈسٹرکٹ چاغی و نوشکی تک میں کینسر سمیت مہلک جلدی بیماریوں کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔ ان ایٹمی تجربات نے گوکہ پاکستان کو فائدہ دیا ہو لیکن بلوچستان میں خاص طور پر چاغی کے ملحقہ علاقوں میں یہ ایک اپاہج نسل پیدا کررہی ہے۔ حالیہ دنوں میں خضدار میں بھی کینسر کے کیسسز میں بہت اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ گوکہ اس حوالے سے کوئی سائنسی تحقیق نہیں ہوئی ہے لیکن بلوچ قوم پرست حلقوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ اسکی بنیادی وجہ خضدار کے قریب پاکستانی خفیہ ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرہ خانوں کا قیام ہے ۔ جہاں زیر زمین جوھری ہتھیاروں کو رکھا جاتا ہے ۔ اب تک تفصیلات واضح نہیں لیکن یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ وہاں خفیہ نیوکلیئر پلانٹ بھی قائم ہوں جہاں یورینیم افزودگی کے تجربات ہوتے ہیں ۔ اس بابت دی بلوچستان پوسٹ تفصیلی رپورٹ شائع کرچکی ہے ۔
بلوچستان کے دوسرے مسائل کی طرح کینسر کا مسئلہ بھی نظر انداز تھا ، لیکن سوشل میڈیا پر چلنے والے مہمات کے دوران اس بابت تفصیلات سامنے آنے لگے ۔ ان میں قابلِ ذکر خضدار سے تعلق رکھنے والے نوجوان ریحان رند کی اپنے آخری ایام میں سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم ہے، جس میں اس نے کوشش کی کہ بلوچستان میں ایک کینسر ہسپتال قائم کی جائے ۔ گوکہ ریحان رند کینسر سے بازی ہار گئے لیکن ریحان رند فاونڈیشن نامی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے ایک چھوٹے پیمانے پر یہ کوشش جاری ہے ۔
ریحان رند کے علاوہ شہ مرید، نعمت اللہ،مہر بی بی ، سدھیر ،نور بی بی ، طارق اور اویس جیسے نوجوانوں کے کیسز سوشل میڈیا پر زیر بحث رہے، جس کی وجہ سے پہلی بار اس امر کا احساس ہوا ہے کہ بلوچستان میں کینسر کا مسئلہ بہت ہی زیادہ سنجیدگی اختیار کرچکا ہے ۔
بلوچستان جیسا جنگ زدہ علاقہ جو پہلے سے ہی معاشی ، سماجی اور سیاسی حوالے سے مکمل طور پر نظر انداز اور منتشر ہے ۔ یہاں یہ امید رکھنا کہ پاکستانی حکومت سیکیورٹی کے علاوہ کسی چیز پر توجہ دے گی خام خیالی ہوگی ۔ اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کو ٹھوس اقدامات اٹھانی ہونگی ۔ اس بابت بلوچ سیاسی و سماجی اداروں اور مخیر حضرات کو بھی بلوچستان میں ایک اعلیٰ کینسر ہسپتال کے قیام کیلئے کوشش کرنی چاہیئے۔