بلوچستان میں میڈیا بائیکاٹ الٹی میٹم ختم : تحریر : الیاس کشمیری

640

تحریر: الیا س کشمیری

صدر جموں کشمیر پیپلزپارٹی نیشنل یوتھ لیگ

پاکستان میں قومی سوال کے وجود میں آنے کے اسباب مادی حالات ہیں- پاکستان میں قیام سے لیکر اب تک جاگیرداری نظام مضبوط اور بھیانک شکل میں موجود ھے- جو کہ بہت ضعیف ھوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھے-

پاکستان ایک کثیرالقومی ملک ھے جس میں بلوچ، پنجابی، سندھی، پختون اور سرائیکی قومیں آباد ہیں- یہ قومیں مشترکہ خطہ زمیں، مشترک زبان، مشترک ثقافت، مشترک اقتصادی زندگی اور مشترک نفسیاتی ساخت اور مشترک قومی کریکٹر رکھتی ھیں، موجودہ حالات میں یہ سب قومیں مل کر ایک قوم تشکیل نہیں دے سکت- چونکہ پاکستانی سماج بنیادی طور پر جاگیردارانہ ھے- ایسے سماج میں ایک قوم کی تشکیل ممکن نہیں-

قوم کی تشکیل کے لیے سماجی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت ھے- پاکستان میں مصنوعی آزادی کے بعد ایک گماشتہ سرمایہ دار طبقہ ضرور پیدا ھوا جو سامراجی ممالک کا گماشتہ ھے- اس ابھرتے ھوے گماشتہ سرمایہ دار طبقہ نے پاکستانی قوم کے تصور پر زور دیا اور پاکستان کی قومی وحدت کو دوسری قوموں پر بھی جبراً عائد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی- قومی وحدت کا یہ سارا تصور جس کو یہاں تفصیلاً احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں پاکستان کی ابھرتی ہوئی قوموں کا بھر پور استحصال تھا- اور استحصال کا شکار ھونے والی یہ قومیں بہت جلد اپنے تجربے سے سمجھ گئیں کہ زبان، ثقافت اور مذہب کی وحدت کا یہ فلسفہ قومی استحصال اور نا انصافی کے لیے ایک نقاب کا کام کرتا ھے-

اس لیے ایک طرف تو وحدت، اخوت اور اتحاد کا درس دیا جا رہا ھے اور دوسری طرف چھوٹی اور کمزور قوموں کے قومی وسائل پر ناجائز قبضہ کیا جا رہا ھے- اس فریب کاری کی بدولت پنجاب کے استحصالی طبقہ نے چھوٹی قوموں کے حقوق غصب کرنا شروع کر دیے- اس طرح بڑے اور طاقتور طبقہ نے بلوچستان اور سندھ کے معدنی دولت اور خام مال کو ہتھیا لیا- اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان پر ظلم، جبر اور استحصال دن بدن بڑھتا گیا اور اس بنیادی قومی استحصال کا عکس سیاسی صورتحال پر پڑا، اصل میں پاکستان میں سیاسی اقتدار پنجاب کے بالائی طبقات جاگیر دار اورگماشتہ سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ھے-

سچائی یہی ھے کہ بلوچوں اور دوسری قوموں کی قومی زبانوں کو نیست و نابود کرنے کی پوری کوشش کی گئی اور ان کی تہذیب اور ثقافت کو تباہ و برباد کرنے کے تمام حربے استعمال کیے گئے- اس سارے ظلم و جبر کو سہتے ھوے بلوچ عوام میں پنجاب کے بالادست طبقات اور بلوچستان میں موجود ان طبقات کے گماشتوں کے خلاف قومی محرومیوں کے خلاف جدوجھد منظم ھونا شروع ہوئی – عظیم بلوچ رہنما نواب خیر بخش مری نے بلوچ قوم کے نوجوانوں کی مارکسی اور لیننی بنیادوں پر قومی محرومیوں کے خلاف صبر آزما اور کٹھن جدوجھد کے لیے تربیت کا اعلی فریضہ سر انجام دیا- بلوچ عوام بالادست طبقے کے خلاف گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل جدوجھد کے عمل میں ہیں- اس عملی جدوجھد میں بلوچ تحریک کئی نشیب و فراز سے گزری-

بالادست طبقے نے اس قومی تحریک کو جبروتشدد سے کچلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا.بلوچ قوم کے پڑھے لکھے لوگوں کا قتل عام کیا گیا- نوجوانوں کو اغواء کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں چوکوں میں پھینک کر بلوچ عوام کو خوف ذدہ کرنے کی کوشش کی گئی- ان کے گھروں کو مسمار کر کے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا گیا-جبروتشدد کی کوئی وحشیانہ مثال ایسی نہیں رہ جاتی جو پاکستانی ریاست نے بلوچ تحریک کو کچلنے کے لیے استعمال نہ کی ھو- اس اندھے ریاستی ظلم جبر نے بلوچ عوام کو ایسا جزبہ مہیا کیا کہ اب بلوچ ایک ہاتھ سے اپنے دوستوں، اپنے سورماؤں، اپنے محسنوں، اپنے بزرگوں، اپنے نوجوانوں، اپنی ماؤں اور بہنوں کی لاشیں اٹھاتے ہیں تو دوسرے ہاتھ سے خوف زدہ اور ہاری ہوئی ریاست پر اتنا ہی شدید وار کرتے ہیں- بلوچ عوام قومی آزادی کے عظیم مقاصد کو شعوری طور پر اپنا نصب العین بنا چکے ہیں- بلوچ عوام پر ہونے والے غیرانسانی تشدد پر میڈیا نہ صرف خاموش رہا ہے بلکہ ریاستی میڈیا نے ہمیشہ ریاست کے بیانیے کو ہی پیش کیا ہے-

بلوچ تحریک میں شامل تنظیموں نے کئی بار میڈیا کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے کہ میڈیا ریاست کے بیانیہ کو ہی بیان نہ کرے بلکہ بلوچستان کی موجودہ حقیقی صورتحال کو سامنے لائے- کئی بار تحریکی تنظیموں نے ان اداروں کو وارننگ دی لیکن ریاستی چاپلوسی سے میڈیا باز نہیں آیا- مورخہ 4 نومبر کو مسلح بلوچ تنظیموں بی ایل ایف، بی ایل اے اور یو بی اے نے میڈیا بائیکاٹ تحریک کا اعلان کرتے ھوئے 24 نومبر کا ایلٹی میٹم دیا تھا کہ نیوز ایجنسیاں، پرنٹ و لیکٹرانک میڈیا بلوچستان میں اپنے یک طرفہ رویے کو سدھاریں اور صرف ریاستی تشہیری ادارے بننے کے بجائے غیر جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان میں ہونے والے ظلم و جبر اور حقیقی حالات کو بھی عوام اور دنیا کے سامنے پیش کریں بصورت دیگر بلوچستان میں اخبارات کی ترسیل بند کرانے کی دھمکی بھی دی تھی-

اس سلسلہ میں مورخہ 20 نومبر کو پمفلٹ بھی تقسیم کیا گیا جس میں. عوام اور ٹرانسپوٹران ذرائع سے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی- 24 اکتوبر کو ایلٹی میٹم کا وقت پورا ھوگیا ھے- بی بی سی کے نمائندہ کے مطابق 24 اکتوبر کے اخبارات شائع ہوے لیکن فروخت نہ ھو سکے کیونکہ ٹرانسپورٹروں اور ہاکروں نے اخبارات کی ترسیل اور فروخت کرنے سے انکار کر دیا ھے-

پہلے دن حب گڈانی سٹاپ کے قریب واقع جیو نیوز، جنگ اخبار اور بولان اخبار کے دفتر پر دستی بم حملہ کیا گیا جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ھوا- اس دھماکے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی ھے- اور تازہ اطلاع کے مطابق جنگ اخبار کی اشاعت بند کر دی گئی ہے-

یہ سارے حالات بلوچ قوم کی قومی آزادی کی شدید خواہش اور جابر اور غاصب قوتوں کے قبضے کو قائم رکھنے کے توسیع پسندانہ عزائم کے درمیان پائے جانے والے تضاد میں شدت کا پتا دیتے ھیں- اور اس تضاد کا واحد حل قومی جمہوری انقلاب ھے.