اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں مسلسل تین روز سے اخبارات کی ترسیل مکمل بند ہو چکی ہے،کوئٹہ میں سرکاری ،نجی و پرائیوٹ دفاتر بھی اخبارات سے محروم۔
بلوچ مسلح تنظیموں بلوچستان لبریشن فرنٹ، بی ایل اے اوریو بی اے کی جانب سے میڈیا بائیکاٹ حوالے الٹی میٹم24 اکتوبر کو ختم ہوئی مگر اس سے ایک روز قبل ہی ہاکرز اور ڈسٹیبیوٹرز نے اخبارات اُٹھانے سے انکار کر دیا۔
بلوچستان میں میڈیا بلیک آوٹ حوالے سے بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں نے سخت قدم اُٹھایا ہے،بلوچستان کے عوامی حلقوں کی جانب سے اس اقدام کی حمایت کی گئی ہے، اس لیے کہ بلوچستان کو نہ صرف پرنٹ بلکہ الیکٹرونک میڈیا نے مکمل نظر انداز کیا ہوا ہے۔
ایک نوجوان نے بیورو چیف کو بتایا کہ یہ 80 کی دہائی نہیں اب بلوچ پاکستانی میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا کا استعمال جان چکا ہے،اگر بلوچستان میں پاکستانی الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا بند ہو جائے تو بلوچ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اسکی خبریں ،خیالات بذریعہ بلوچ سوشل اکٹیوسٹس یا انکے موجود آن لائن نیوز ویبسائیڈز سے بلوچ کو پہنچنے کے ساتھ دنیا کو پہنچ رہے ہیں۔
ایک سینیئر صحافی نے بتایا کہ یہ بائیکاٹ ضرور کسی نتیجہ تک پہنچے گی، اس لیے کہ پہلی بار تاریخ میں یہ سب ہو رہا ہے اور گزشتہ روز حب میڈیا دفاتر پر دھماکے نے ضرور میڈیا ہاؤسز مالکان کو سوچھنے پر مجبور کردیا ہو گا
دوسری جانب بلوچ مزاحمتی تنظیم سے منسلک ایک کمانڈر نے بیورو چیف کو فون پر بتایا کہ یہ عمل ضروری تھا اس لیے کہ یہ مقبوضہ بلوچستان ہے اگر میڈیا ہاوسز مالکان یہاں سے کروڑوں کمارہے ہیں تو انکو بلوچ کی خبر دینی پڑے گی ورنہ انکے ساتھ بھی پاکستانی فوج جیسا سلوک کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا آزادی صحافت کی بات کرنے والے صرف فوج و سرکار کی زبان بولتے و شائع کرتے ہیں،ایسے میڈیا کی بلوچستان کو ضرورت نہیں ہے،انہوں نے مزید کہا کہ ابھی شروعات ہیں اور آگے سخت عمل باقی ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان بھر میں اخبارات کی ترسیل بندش بعد اب پاکستانی خفیہ اداروں و فوج کی جانب سے ہاکرز ،ٹرانسپوٹرز پر دباؤ اور دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔