محترم دوستو غیور بلوچو زہری جھالاوان کے بہادر نوجوانو آپ سب کے ساتھ پچھلے چند سالوں سے سوشل میڈیا کی مدد سے مختلف مضامین آرٹیکلز افسانوں اور خط و کتابت کے زریعے جڑے ہیں. اور وقت و حالات پر اپنی ناقص رائے اور خدشات کو پیش کرتے رہتے ہیں تاکہ آپ لوگ بیدار رہیں. اس دوران آپ دوستوں کا، زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ لوگوں کا عمر کے لحاظ سے چھوٹے بڑے افراد کا رسپانس ہمارے لیے حوصلے کا باعث بنا رہا. ہم نے بھی انتہائی ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دینے کی بھر پور کوشش کی. کسی سے زاتی دشمنی یا لگاؤ نہیں تھا بلکہ اپنا فرض سمجھتے ہوئے اپنے کام کو سر انجام دیا. اگر لگاؤ ہے تو اپنی سرزمین سے ہے اپنے لوگوں سے اپنے وطن، وطن کی آب و ہوا سے ہے. آج آپ لوگوں کو موجودہ اور آنے والے دنوں میں علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور دشمن کے عزائم کا پردہ چاک کر کے آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ زہری آنے والے دنوں میں کس طرف جا رہا ہے اور یہ سفر ہمارے علاقے کے لیے کس طرح تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے.
بہت زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں حالیہ مردم شماری کے وقت سے شروع کرتا ہوں. مردم شماری کے دوران جہاں پورے بلوچستان میں مردم شماری (مخبری) کرنے والی فوجی ٹیم پر حملے ہو رہے تھے وہاں بلوچستان کا ایک علاقہ زہری تھا جس میں روز ایک میر معتبر ان فوجیوں کو ایک پکنک دے رہا تھا. زہری کے نوجوان قاتل فوجیوں کے ساتھ فوٹو کھینچ کر فیس بک پر اپ لوڈ کر رہے تھے. زہری وہ علاقہ ہے جس سے لگے گھاؤ کو دشمن آج تک نہیں بھول سکا لیکن ہم زہری کی مٹی سے جنم لینے والے اپنے پرکھوں کے لہو کو فراموش کرکے دشمن کے ساتھ تصویر کشی کر رہے تھے. ہماری یہ مضمون ان والدین کو آگاہ کرنے کے لیے ہے جن کے بچے ناسمجھی میں یہ قدم اٹھا رہے ہیں اور آپ کو آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی نظروں سے اوجھل کوئی اپنی چھری آپ کی پیٹھ میں نہ گھومپے. زہری مشک سراپ، زہری نورگامہ، زہری تراسانی اور زہری گزان سمیت علاقے کے مختلف حصوں میں ایسے نوجوان موجود ہیں جو دشمن فوجیوں کے ساتھ تعلقات رکھنے کے خواہشمند ہیں. یہ وہی فوجی ہیں جو مکران بولان رخشاں اور کوہستان میں ہمارے اپنے بھائیوں کے گھروں کو جلا رہا ہے ہمارے نوجوانوں کو اغوا کر رہا ہے ہیلی کاپٹروں سے نیچے گرا رہا آپریشن کرکے مال مویشیوں کو مار رہا ہے پانی کے چشموں میں زہر ملا رہا ہے عورتوں کو غائب کر رہا ہے.
اس کے علاوہ میر امان اللہ زرکزیی سے صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اپنے بزرگوں کی قربانی کا لاج رکھتے ہوئے کوئی ایسا قدم نہ اٹھانا جس سے اُن کی روح کو تکلیف پہنچے. آپ کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے شھید علی محمد مینگل کے خاندان سے تعلق رکھنے والے شفیق مینگل، شھید لونگ خان مینگل کے بیٹے قمبر خان مینگل، گوریلا کمانڈر شائستہ خان مینگل کے بیٹوں کوہی مینگل احمد مینگل اور آپ کے بزرگ والد نواب نوروز کے دست راست شھید بھاول خان بوہیر زئی موسیانی کے بھتیجے مرتضیٰ موسیانی کے انجام کو سامنے ضرور رکھنا. علاقے میں موجود ایک عام لیکن ایک زمہ دار فرد کی حیثیت سے آپ کو اطلاع دینا اپنا فرض سمجھتے ہوئے ادا کر رہا ہوں ہو سکتا ہے آپ کی شان میں گستاخی ہو لیکن اطلاع دینا آگاہ کرنا میرا فرض بنتا ہے وہ میں نے ادا کردیا. چھوٹا منہ بڑی بات ہو گی لیکن پھر بھی عرض کئیے دیتا ہوں کہ کرخ مولہ زہری میں لگے زخموں کو پنجابی کبھی نہیں بھول سکے گا وہ اپنا حساب سود سمیت واپس لیتا ہے. اُس سے دوستی خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا.
تیسرا اور اہم خطرہ جو آنے والے دنوں میں زہری کی فضا میں منڈلا رہا ہے اس سے سب سے پہلے سراپ میں مقیم جتک قبیلہ متاثر ہو سکتا ہے. شروع شروع میں بہت سی چیزیں اتفاقاً رونما ہوتے ہیں یا ایسے لگتے ہیں کہ یہ حادثاتی طور پر ہوا لیکن چند سال بعد اس کا اصلی چہرہ سامنے آنے کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ وہی حادثہ تھا جو اب باقاعدہ ایک تباہی کی شکل اختیار کر گیا. ہماری نادانیوں کی وجہ سے بھی دشمن ہمارے لیے دشمنیاں پالتا ہے اور وقت آنے پر ہمارے گلے کی ہار بنا کر پیش کرتا ہے. بلوچستان میں ہونے والے ہزاروں واقعات و قبائلی جنگوں کا نتیجہ ہمیں غور کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ یہ سب کچھ پلانٹڈ ہیں جس سے کوئی اور فایدہ اٹھا رہا ہے. وہ گولی جو دشمن کے سر میں اتارنے کے لیے ہوتی ہے اسے ہم سب سے پہلے اپنے بھائی کے سینے میں اتارتے ہیں وجہ یہ ہے کہ آپ کا دشمن کبھی یہ نہیں چاہتا کہ آپ اپنے الجھنوں سے فارغ ہو سکو. وہ جانتا ہے کہ اِن کو آپسی مسائل میں الجھائے رکھو تاکہ میں اپنا قبضہ مزید مضبوط کر سکوں. رند رئیسانی قبائل کی جنگ نے جو تباہی مچا دی اس سے بلوچ قوم آج تک نکل نہیں پائی. لانگو قبیلے کی آپسی جنگ. مینگل سناڑی ششک تنازعہ. کرخ زیدی میں حسن خان ساسولی کی حالت زار، زہری میں جمالزئی سیاہ کاری مسلہ کا نتیجہ ہم سب نے دیکھا. اب اگر بانزوزئی جتک سرداری دستار کو لیکر کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو اس کا بہت بڑا نقصان سامنے آنے کا خطرہ مول سکتے ہیں. آخر میں تمام قبائلی جھگڑوں کو چلانے والے افراد پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے کام کرنا شروع کرتے ہیں اور بلوچ نوجوانوں کو اغوا کرکے دشمن کے ہاتھ دیتے ہیں وہاں سے اٹھا کر مسخ شدہ لاش کی صورت میں واپس پھینک دیتے ہیں.
اس کی بھی ایک وجہ ہے. شروع میں تنازعہ ہم خود پیدا کرتے ہیں لیکن بعد میں ختم کرنا ہمارے بس میں نہیں ہوتا کیونکہ اس کو چلانے والے دماغ اور ہوتے ہیں جو نہیں چاہتے کہ کسی مسئلے کا تصفیہ ہو. جنگیں معیشت کے بغیر نہیں چل سکتیں مجبوراً فریقوں کو چوری ڈکیتی کا سہارا لینا پڑتا ہے. اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا ہے بدامنی زیادہ ہو جاتی ہے. دوسری جانب یہی فریقین سرکار کی نظر میں وانٹڈ ہو جاتے ہیں کاروبار (زمینداری نوکری) نہیں کر سکتے.
. مالی حوالے سے پریشانیوں کا شکار ہو کر دشمن کے نرغے میں پھنس کر بلوچ نوجوانوں کی مخبری کرتے ہیں. یہی وہ موقع ہوتا ہے جب ہم عام لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ وہی حادثہ تھا جو اب ایک تن اوار درخت بن گیا.
اسی طرح وہ نوجوان جو اس وقت یوتھ ونگ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں یا بھٹار قبیلے کے افراد جو ایک چھوٹے سے مسئلے پر گھتم گھتا ہیں وہ ان چالبازیوں کو بھانپتے ہوئے سمجھداری کا مظاہرہ کریں اور کسی اور کی زاتی جنگ میں ایندھن نہ بنیں.