افغانستان میں فضائی حملوں میں 50 فیصد سے زائد شہری ہلاک

133

اقوام متحدہ نے کہاہے کہ افغان سکیورٹی فورسز اور امریکی افواج کے فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد میں گزشتہ سال کی نسبت اس برس پچاس فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔

میڈیارپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے شائع ہونے والی ایک سہ ماہی رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافے کا سبب رواں برس اگست میں امریکی صدر ٹرمپ کی افغانستان میں نئی عسکری حکمت عملی متعارف کرنے کے بعد سے امریکی فوج کے حملوں کا زیادہ ہونا ہے۔

اقوام متحدہ کے تحقیق کاروں کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اس سال ستمبر کے آخر تک کم سے کم دو سو پانچ افغان شہری ہلاک جبکہ 261 زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سویلین ہلاکتوں میں اڑتیس فیصد بین الاقوامی افواج کے فضائی حملوں جبکہ باقی ماندہ افغان سکیورٹی فورسز کے حملوں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں دو تہائی سے زائد خواتین اور بچے ہیں۔ مزید یہ کہ سن 2010 سے لے کر اب تک کسی بھی ایک مہینے میں ہونے والے حملوں کی نسبت اس سال ستمبر میں ہوئے فضائی حملے کہیں زیادہ ہیں۔امریکی ملٹری کمانڈ کے ترجمان نے اس رپورٹ پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

دوسری جانب افغان وزارت دفاع کے ترجمان جنرل دولت وزیری نے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت اپنے شہریوں کی ہلاکتوں کے معاملے کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔مجموعی طور پر اقوام متحدہ نے چونسٹھ فیصد شہری ہلاکتوں کا ذمہ دار حکومت مخالف عسکریت پسند گروپوں یعنی طالبان اور جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کو اور بیس فیصد حکومت نواز فورسز کو قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ کی اس سہ ماہی تحقیقی رپورٹ کے مطابق باقی ماندہ سول ہلاکتیں مشترکہ لڑائی یا نامعلوم گروپوں کے حملوں کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔