ٹی بی پی رپورٹ : حیدر میر
بلوچستان میں لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کا مسئلہ روز بروز سنگین ہوتا جارہا ہے، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے اعدادو شمار کے مطابق اس وقت پچیس ہزار افراد خفیہ اداروں ، فوج اور فوج کے قائم کردہ ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں اغواء ہوکر لاپتہ ہوچکے ہیں۔ اس سنگین انسانی المیے کے بابت ہمیں کسی بھی ادارے کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم اٹھتا نہیں دِکھائی دیتا ہے۔ جہاں تک پاکستانی قائم کردہ اداروں کا تعلق ہے وہ محض اس مسئلے کو اعدادو شمار میں الجھا کر ذمہ داروں کی پردہ پوشی میں مگن ہیں۔
پاکستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے قائم کردہ کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) جاوید اقبال نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بتایا گیا ہے، وہاں اتنے لوگ لاپتہ نہیں جتنا ہمیں بتایا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے اس بات کو سہارا دیتے ہوئے کہا تھا کہ ماما قدیر پچیس ہزار کے قریب لاپتہ بلوچوں کی بات کرتے ہیں، مگر وہ ان افراد کی تفصیلات جمع کرنے میں ناکام رہے۔
اجلاس کے دوران سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کی تعداد سے متعلق فہرستوں کی حیثیت متنازع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیشن نے ‘جس طرح ماما قدیر سے براہ راست تنقیدی سوال کیئے، اگر وہی سوال متعلقہ اداروں سے کیئے جاتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی’۔
لاپتہ افراد کے حوالے سے کمیشن چھ سال قبل قائم کی گئی تھی، مگر اب تک اس کمیشن کی کارکردگی سامنے نہیں لائی جاسکی اور یہی بات اس کمیشن کی حیثیت اور اسکے سربراہ کے بیان کو متنازع بنا رہی ہے۔
اس بیان کے رد عمل میں بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے سربراہ بی بی گل بلوچ نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ، “دو ہزار پندرہ کے آخر سے لیکراپریل2016 تک خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان سے 12,000افراد کو مشتبہ ہونے کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا، ان افراد کی تفصیلات تاحال میڈیا کو جاری نہیں کی گئی ہیں اور نہ ہی ان میں سے بیشتر کو عدالتوں میں پیش کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ آئے روز کی گمشدگیوں کے واقعات پر بھی جاوید اقبال نے کوئی بات ظاہر کرنے سے گریز کی”۔
انھوں نے مزید کہا کہ،”دو ہزار سولہ کو بی ایچ آر او کو گمشدگی کے 1809کیسز موصول ہوئے جبکہ رواں سال کی پہلی شش ماہی میں1302گمشدگی کے کیسز بی ایچ آر او کو موصول ہوئے جبکہ اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔ ان کیسوں کی تفصیلات کو ہم ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق سمیت تمام انسانی حقوق کے اداروں اور میڈیا پرسنز کے ساتھ شیئر کرنے کوتیار ہیں”۔
لاپتہ افراد کے تعداد وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق بچیس ہزار کے قریب ہے، مگر کیا ان تمام کی تفصیلات جن میں ایف آئی آر، اغواء ہونے کے ثبوت وغیرہ جمع کرنا بلوچستان جیسے علاقے میں ممکن ہے؟
بلوچستان میں چار بڑی آزادی کی تحریکیں اپنا عروج و زوال دیکھ چکی ہیں، اور اس صدی کی شروعات سے لیکر ابتک ایک تازہ لہر جاری ہے، ان دہائیوں میں اغواء اور ماورائے عدالت قتل کیئے جانے والوں کی صحیح تعداد اگر معلوم کی جاتی تو ماما قدیر کے بتائے گئے ہندسے بھی بونے معلوم ہوتے ہیں۔
خفیہ اداروں کی جانب سے اگر کوئی بلوچ اغواء کیا جاتا ہے، تو انکے خلاف ایف آئی آر درج کرنا پولیس اہلکاروں کے لیئے اپنی موت کو دعوت دینے جیسا ہوتا ہے، ایسے کئی واقعات کی خبر ملی ہے جہاں خفیہ اداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے والے اہلکار خود لاپتہ ہوئے ہیں اور ان پر شدید دباو ڈالا گیا ہے، حتیٰ کے سپریم کورٹ کے قائم بینج میں پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پیش کی تھی جہاں فرنٹئیر کور کو سرعام دو بلوچ نوجواںوں کو اغواء کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے لیکن اس ٹھوس ثبوت کے باوجود بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا الٹا پولیس میں اکھاڑ پچھاڑ اور تبادلے ہوئے۔ خفیہ اداروں کی بلوچستان میں طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ اخترمینگل کا اپنا بھائی اغواء کیا جاتا ہے اور انھیں انکی شہادت کی اطلاع تب ملتی ہے جب دورانِ پروگرام جنرل حمید گل اختر مینگل کو بتاتا ہےکہ انکا بھائی کشمیر کے ایک فوجی جیل میں جانبحق ہوا تھا اور اسے ادھر ہی دفنا دیا گیا تھا۔
لاپتہ افراد کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ اس لیئے بھی ہوا ہے کہ خفیہ ادارے شک کی بنیاد پر لوگوں کو اٹھا کر انھیں زندانوں میں پھینک رہے ہیں، مگر اب ایف سی اور خفیہ ادارے اس عمل کو اپنے لیئے ایک کاروباری شکل دے چکے ہیں، جہاں لوگوں کو لاپتہ کرکے انکی مسخ شدہ لاشیں سڑک کنارے پھینک دی جاتی ہیں، وہاں اب لاپتہ افراد کے گھر والوں سے انکے پیاروں کے لیئے تاوان بھی مانگا جا رہا ہے۔
گذشتہ دنوں دالبندین کے رہائشی نعمت اللہ بلوچ نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ انکے بھائی حفیظ اللہ کو 30 اگست کے دن حاجی ولی محمد کے گھر سے ایف سی اہلکار اٹھا کر لے گئے، تب سے انکے بھائی کی کوئی خبر نہیں، مگر اغواء کے چند دن بعد ایک ایف سی اہلکار نے ان سے رابطہ کرکے کہا کہ اگر وہ اسے 50 لاکھ روپے دیتے ہیں تو انکے بھائی کو چھوڑ دیا جائیگا، نعمت اللہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے خاندان والوں سے ادھار لیکر ایف سی اہلکار کو یہ رقم دے دی تھی مگر 10 روز انتظار کے بعد بھی انکے بھائی کو چھوڑا نہیں گیا، بلاخر وہ دالبندین کے ایف سی کمانڈنٹ سے ملکر انھیں یہ کہانی بتائی اور ردعمل میں اس ایف سی اہلکار کو گرفتار کرکے اس سے پوچھ تاچھ کی گئی تو پتہ چلا کہ اس اہلکار نے لاپتہ حفیظ بلوچ کو ایک اور گروہ کو بیچ دیا ہے جس کے سرغنہ کا نام ثاقب ہے۔
بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ اب ایک سنگین عالمی بحران بن چکا ہے لیکن اس بحران سے نا صرف پاکستانی عدلیہ، مقننہ اور فوج انکاری ہے بلکہ عالمی ادارے بھی چشم پوشی کا مظاھرہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان میں چلی کے جنرل پنوشے کی کاروائیاں بھی کم وحشی نظر آتی ہیں۔ حالانکہ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ لاپتہ ہیں اور اس کے پیچھے پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے ملوث ہیں۔ مسخ شدہ لاشیں اور اجتماعی قبریں یہ بات واضح کرنے کیلئے کافی ہیں کہ ان لاپتہ بلوچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بناکر مارا جارہا ہے لیکن اسکے باوجود اس مسئلے کو الجھانے کیلئے اعداد و شمار کا کھیل کھیلا جارہا ہے اور اسی چکر میں اس مسئلے کو متنازعہ بنایا جارہا ہے تاکہ اصل ذمہ داروں کے نام نا آسکیں اور مظلوم ہی یہاں گنہگار ثابت ہوجائیں۔