اکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کی ایک عدالت نے توہینِ مذہب کے ایک مقدمے میں تین مجرموں کو سزائے موت سنائی ہے جن کا تعلق احمدی برداری سے ہے۔
شیخوپورہ کے ایڈیشنل اور سیشن جج جاوید اکرم نے بدھ کو سنائے جانے والے فیصلے میں مبشر احمد، غلام احمد اور احسان احمد کو توہینِ مذہب کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ہر ایک کو دو، دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی ہے۔
احمدی برداری کے ترجمان سلیم الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس مقدمے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ شرقپور کے نواحی گاؤں بوئے وال میں ایک دکان کے باہر چسپاں ایک پوسٹر پھاڑنے پر احمدی برادری کے چار افراد کے خلاف مئی 2014ء میں توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سلیم الدین کے بقول اس پوسٹر پر احمدی برداری کا سماجی بائیکاٹ کرنے سے متعلق عبارت درج تھی۔
ضلع شیخوپورہ کے سرکاری وکیل زاہد یونس کے مطابق اس واقعے کے بعد مبشر احمد، غلام احمد ،احسان احمد اور خلیل احمد کے خلاف مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ درج ہوا اور ان میں ایک ملزم خلیل احمد کو ایک مشتعل شخص نے شرق پور تھانے میں گھس کر گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ جبکہ باقی تین دیگر ملزمان کے خلاف مقدمہ کی سماعت ہوئی۔
زاہد یونس کے بقول ملزمان نے مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے خلاف عائد کیے جانے الزامات کی صحت سے انکار کیا تھا۔
تینوں مجرم اپنی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں توہینِ مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور انسانی حقوق کے موقر ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سربراہ مہدی حسن کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں متعدد افراد کو قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے مشتعل ہی افراد نےنشانہ بنا کر ہلاک کر دیا جن پر توہیں مذہب کے الزامات عائد کی گئے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، “گزشتہ چند سالوں کے دوران جن افراد پر توہین مذہب کے الزامات لگے ان میں سے ایسے چھ سات واقعات ہو چکے ہیں جن میں بعض افراد کو (مشتعل افراد نے) قتل کر دیااور ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جن کا تعلق احمدی اور مسیحی برداری سے تھا اور ان میں چند ایک مسلمان بھی تھے۔”
شیخوپورہ کی عدالت کی طرف سے احمدی برادری کے افراد کے خلاف فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب رواں ہفتے ہی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی محمد صفدر نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے احمدی برداری کو ملک اور قوم کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کی مسلح افواج میں ملازمت پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
کیپٹن صفدر کے بیان پر احمدی برداری سمیت ملک کے کئی سیاسی اور سماجی حلقوں نے تنقید کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
احمدی برداری کو پاکستان میں 1970ء کی دہائی میں کی جانے والی ایک آئینی ترمیم کے تحت غیر مسلم قرار دیا گیا تھا اور بعد ازاں سابق فوجی صدر ضیاالحق کی حکومت نے ایک قانون منطور کیا تھا جس کے تحت اگر احمدی برداری کا کوئی فرد اپنے آپ کو مسلمان قرار دے تو وہ قانون کے مطابق سزا وار ہو گا۔
سلیم الدین کے مطابق پاکستان میں احمدی برداری کے افراد کو مذہب کی بنیاد پر نہ صرف امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے بلکہ بعض اوقات انہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔
مہدی حسن کا کہنا ہے کہ احمدی برداری کا شمار ملک کی سب سے مظلوم برداریوں میں ہوتا ہے اور ان کے بقول اس برداری کی افراد کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑے پر مجبور ہوئی۔
تاہم حکام کا کہنا ہے ملک میں انتہا پسند عناصر کی کارروائیوں کی وجہ سے ہر طبقے کے افراد ہی نشانہ بنتے رہے ہیں اور حکومت بلا تفریق ہر مذہب، رنگ و نسل اور عقیدے سے تعلق رکھنے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔