ویسے قوم پرست رہنماء نواب خیر بخش مری کے بیٹے ہونے کے علاوہ گزین مری کی بلوچ قومی تحریک میں کوئی کردار نہیں رہا ہے گزین مری اور اس کے بڑے بھائی چنگیز مری شروع سے ریاستی مہرے رہے ہیں۔ وہ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔
گزین مری کی کافی عرصے سے پاکستان آمد متوقع تھی اور بلوچ قومی تحریک کے خلاف سرگرم رہنے کا اردہ رکھتا تھا شاید پنجاپی سے کچھ لینے اور کچھ دینے کی بنیاد پر کام نہیں بن رہا تھا یا اس وقت ریاست کو گزین والے کارڈ کے استعمال کی ضرورت نہیں تھی یا پھر خود گزین مری کیلئے میدان اور اپنے مری قبیلہ کے اندر حالات سازگار نہیں تھے، ابھی موقع ملا تو ماشاء اللہ موقع گنوا نہیں سکے۔
اب یہ دیکھتے ہیں کہ وہ چنگیز مری اور ہزار خان مری سے زیادہ کیسے پاکستان کی وفاداری نبھائیگا، گمان ایسا ہے کہ گزین چند قدم آگے ہوگا اور اس کو آگے ہونا ہوگا کیونکہ دیر آید درست آید لیکن پھر بھی وقت کم مقابلہ زیادہ دلالوں میں سب سے بڑا دلال ثابت ہونے کیلئے۔
گزین مری کا منفی کردار و سوچ اور اسکے ماضی و حال کو دیکھ کر اور مستقبل کے تجزیہ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ریاست ایک اور شفیق مینگل جیسا مہرہ تخلیق کرے گا اور گزین کو ڈھال بنا کر بلوچ قومی تحریک میں باقی ماندہ مری قبیلے کے لوگوں کیلے ذمین تنگ کردیگا، دھمکی ،لالچ ، خوف ، دہشت ، بلیک میلنگ اور فریب جیسے خصلت گزین مری کے ویسے خصوصیات میں شمار ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کم از کم موجودہ مزاحمت جو کہ 18 سال سے رواں دواں ہے گزین کی اب ضرورت کیوں پیش آیا حالانکہ پاکستان کی سابقہ صدر آصف ذرداری کے ساتھ گزین مری کے بہت اچھے تعلقات اور بلوچستان کے سابقہ گورنر ذوالفقار مگسی کے گزین داماد ہیں؟ دونوں سے بہت قربت اور ان کا دور اقتدار اور اعلی عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود گزین کو بلوچ قومی تحریک کے سامنے کھڑے ہونے کا گنجائش نہیں دِکھ رہا تھا، آخر کیوں؟ یہاں پھر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تحریک کے کمزور پہلو اور خاص کر تحریک کے اندر آپسی رنجشیں اور آپسی لڑائی اور جذباتی و غیر سنجیدہ فیصلوں نے ہر ایرے غیرے بندے کو بہترین موقع فراہم کردیا اور ساتھ ساتھ ہماری بھی سیاسی بصریت ، اپروچ ، ادارک اور دوراندیشی کو قدم بہ قدم واضح کردیا کہ ہم بھی کتنے حد تک پانی میں ہیں۔
گوکہ یہ بلوچوں میں ایسا طبقہ ہے اگر ان کو اپنے بچوں کے ساتھ پاکستان سے باہر رہنے اور جینے کا جب شوق اور تمنا چڑھے تو باہر پاکستان مخالفت کی آڑ میں کمانا اور جب پاکستان میں رہنا اور جینا ہے تو پاکستان کی وفاداری اور حمایت کی آڑ میں کمانے کا ڈھنگ آتا ہے۔ اگر دیکھا جائے بنیادی طور پر پنچابی کو ان کی ضرورت ہے اور ان کو پنجاپی کی ضرورت ہے دونوں کا مقصد دونوں ہاتھوں سے بلوچ قوم اور بلوچستان کی ملکیت و وسائل کو لوٹنا ہے۔ مسئلہ پیٹ کا ہے جہاں سے جس طرح بھر جائے ،وہ قابل قبول ہے۔<
یسے بھی جب زریعہ معاش کیلئے کوئی بھرپور فائدہ مند دیگر زریعہ موجود نہ ہو یا بندے کے پاس کچھ کرنے کی وس و واک نہ ہو تو سب سے آسان ذریعہ معاش سیاست، جنگ، صحافت اور مذہب وغیرہ ہے۔ ۔سستی شہرت کے ساتھ ساتھ بغیر تکلیف محنت اور مشقت کے بھرپور کمائی بھی ہوگی۔
جب تک بلوچ قوم میں قبائلیت کا ناسور اور اسکے منفی اثرات موجود ہونگے تب تک بلوچ عملاً ذہنی و فکری اور شعوری طور پر خالص بلوچ نہیں بنے گا۔ اس وقت تک بلاواسطہ یا بالواسطہ سینکڑوں کی تعداد میں موجود گزین چنگیز سرفراز، ثناء اللہ اسلم رئیسانی، سراج اور شفیق وغیرہ جیسے بطور اسے معاشی زریعہ و ایندھن بناتے رہینگے ۔
بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں ہر بلوچ کو باقاعدہ ذہنی و سیاسی فکری اور نظریاتی بنیادوں پر صرف اور صرف عملاً بلوچ بنا کر تحریک کے ساتھ وابستہ کرنا ہی تحریک کیلئے سود مند ثابت ہوگا اور پھر ریاست کے ایسے کاسہ لیسوں کو کوئی موقع بھی میسر نہیں آئیگا۔