تحریر: داد جان بلوچ
Colonialism کے معنی کسی دوسری قوم کی زمین پر قبضہ کرنا ہے۔
Coloniserیعنی استعمار ی طاقت کا پہلا مقصد اپنی اقتصادی قوت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا اور پھر کھپت کیلئے منڈیاں قائم کرنا ہے۔ آج اگر چہ حالات گزشتہ زمانوں کی نسبت کافی حدتک بدل چکے ہیں لیکن استعماری طاقتیں اپنی لوٹ کھسوٹ کی پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد خام کوئلہ، چاندی، سونا، کرومائیٹ، اور بحری وہوائی روٹ تک رسائی کے ساتھ ساتھ خطے میں طاقت کا حصول بھی ہے۔ ماضی اور حال کے استعماری طاقتوں کی پالیسیوں میں فرق صرف اتناہے کہ پہلے طاقت کے ذریعے سے دوسرے علاقوں پر قبضہ کیاجاتاتھا جبکہ آج کے زمانے میں طاقت سے زیادہ معاشی معاہدوں کے ذریعے دوسرے علاقوں پر قبضے کو ترجیح دیا جاتا ہے۔ چائنا کی پاکستان میں سرمایہ کاری بھی اسی استعماری پالیسی کا ہی حصہ ہے جو وہ مختلف معاشی معاہدوں کے نام پر دوسروں کی زمینوں کا استحصال کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
سی پیک اُس وقت سے پاکستانی میڈیا میں زیرِ بحث ہے جب پہلی مرتبہ چین کے صدر شی پنگ نے 2013میںThe Ancient Silk Routeکا ذکر انڈونیشیا کی پارلیمنٹ سے خطاب میں کیا تھا۔ جسےModern Silk Route یا Silk Road Economic Beltکے نام سے پکار ا جارہاہے ۔سی پیک چین کی اسی پالیسی کا ایک حصہ ہے۔سلک روڈ جو چائنا کو خشکی کے راستے یورپ سے ملاتی ہے چائنا کے اس وقت کے بادشاہ کے ایلچیQian Zang نے2300سال قبل دریافت کیاتھا خیال کیا جارہاہے کہ چائنا کی ون بیلٹ ون روڈ پالیسی دوسری جنگ عظیم کے یورپ کی تعمیر نوکے مارشل پلان سے بھی بڑا پروجیکٹ ہے۔
کچھ عرصے پہلے ہی بیلٹ اینڈ روڈ سمٹ کا اجلاس بیجنگ میں ہوا جس میں پاکستان کے (سابق ) وزیر اعظم نواز شریف، ترکی کے صدر طیب اُردگان،اور روس کے صدر پیوٹن نے اپنے وفود کے ہمراہ شرکت کی ۔اس اجلاس میں تقریباََ 69ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی ۔تاہم اس اجلاس میں انڈیا اور امریکہ کے نمائندوں نے شرکت نہیں کہ جو کہ اس پروجیکٹ کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔
شی ژن پنگ کے مطابق چیں ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت سنٹرل ایشیا ویسٹ ایشیا، جنوبی ایشیا، مڈل ایسٹ،افریقہ اور یورپی علاقوں تک اپنی معاشی سرگرمیاں بڑھائیگا۔تجارتی سرگرمیوں کیلئے سٖڑکوں کا جال، ریلوے لائنز،پائپ لائنز اور توانائی گرڈز قائم کریگا ۔ اس منصوبے کے دو حصے ہیں ،سلک روڈاکنامک بِلٹ اور میری ٹائم سلک روڈاکنامک بِلٹ جن کے ذریعے چین کا مقصد یورپ اور افریقہ سمیت دنیا بھر کی منڈیوں میں کیmade in Chinaاجارہ داری قائم کرنا ہے۔مقبوضہ بلوچستان کا ساحلی علاقہ گوادر سی پیک کا مرکز ہے جو کہ ون بیلٹ ،ون روڈ کا ایک بنیادی جز ہے۔ ابتدائی طورپر چین ایک ٹریلین یو ایس ڈالر خرچ کررہاہے جب کہ آگے کئی سالوں میں یہ4 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائیگا تاہم اخراجات کا8 ٹریلین تک جانے کا بھی امکان ہے۔
ون بیلٹ اینڈ ون روڈ منصوبے کے تحت چھ کاریڈورز میری ٹائم سِلک روٹ بنائے جارہےہیں۔
ایسٹرن چائنا سے ویسٹرن روس تک۔ *
نیا یوریشیا لینڈبرج *
چائنا ،روس اور منگولیا کاریڈورجو شمالی چین سے سنٹرل ایشیا تک جائے گا،*
ویسٹ ایشیاکاریڈور جو مغربی چین سے ترکی تک پہنچے گا *
انڈو چائنا پیننسولاکاریڈور جوشمالی چین سے سنگاپور تک پہنچ جائے گا ۔ *
کے ناپر بلوچستان میں بھی ون بلٹ ون روڈ منصوبے کو بحر بلوچ سے منسلک کرنے کے لئے سڑکیں بنائی جارہی ہیں ۔ CPEC
میر ی ٹائم سِلک روٹ کو واسکوڈے گاما نے1480کے قریب دریافت کیاتھا اس کی وجہ بحری جہازوں سے کارو بار کی ضرورت تھی۔ اس روٹ کی وجہ سے برَی روٹ کی اہمیت کافی حد تک کم ہوئی۔لیکن آج اس کی اہمیت دوبارہ سے بڑھ رہی ہے۔ چائنا اپنے انفرااسٹرکچر کو بڑھاوا دینے، اسلحہ کی ترسیل ،معیشت اور دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنے،ریجنل سطح اور بین الا قوامی برتری حاصل کرنے کے لیے سلک روٹ کی تعمیر پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔21 Century M.S.Rکا اعلان شی ژن پنگ نے 2013میں کیاتھا ۔ مختلف ممالک کو اس میں لنک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔جبکہ کئی ممالک اس منصوبے سے پہلے ہی منسلک ہوچکے ہیں۔ خشکی کا یہ راستہ چائنا کے شہر شی آن سے شروع ہوکر سنٹرل ایشیا قزاقستاں سے ہوتے
ہوئے یورپ تک پہنچ جائیگا۔ جبکہ سمندری راستہ،Strait of Malaccaسے ہوتے ہوئے بنگال، بحرہند، افریقہ اور نیروبی کینیا سے گزرتے ہوئے اٹلی تک پہنچے گا۔ان دونوں گزرگاہوں کا مقصد دنیا کی بڑی منڈیوں تک رسائی ہے۔ یوروشیا، یورپ، افریقہ اور روس کے علاقوں سے چین گیس، آئل اور دیگر مصنوعات درآمد کرنا چاہتا ہے۔اس منصوبے کے تحت زیر تعمیر سی پورٹس کی تفصیل یوں ہے
(گوادر پورٹ ( بلوچستان *
(پورٹ مالے (مالدیپ *
(چیتاگونگ پورٹ(بنگلہ دیش *
( ہمبٹوٹا پورٹ (سری لنکا *
میانمار پورٹ اتھارٹی *
میانمار انٹر نیشنل پورٹ *
چائنا کی ون بیلٹ، ون روڈ کے تحت بننے والےRailway Projectsکی وہ معلومات جو میڈیا میں جاری کی گئی ہیں۔
China -pakistan railway
تیرہ نومبر 2016میں اس پر دستخط ہوئے تھے ۔یہ منصوبہ چین کو خشکی کے راستے گوادر کی بندرگاہ تک رسائی دے گا۔ چین کے مطابق 2030تک یہ مکمل ہوجائیگا۔
Khargaz- aktau Railway
قازقستان سے لنک کرتے ہوئے چین تک پہنچے گا۔ ریل کا یہ روڈ 450کلومیٹر پر محیط ہے۔
Chongqing-Duisburg Railway
OBORیہ ریلوے لائن کچھ سالوں سے چل رہی ہے جب کہ اب یہ کا حصہ ہوگا۔
Yiwu-Madrid Railway
یہ ریل سروس چائنا اور اسپین کے درمیان چل رہی ہے، اس سروس کو ایک سال کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے۔
Tehran Iran railway
یہ ریلوے سروس 2016 کو چلنا شروع ہوگئی ہے۔ چائنا اپنے پروڈکٹ ایران کو فروخت کررہاہے ۔اس سروس کے استعمال سے چین ایران کی منڈی پر بھی قبضہ کرنے کا خواہش مند ہے۔
China- Kyrgyzstan-Uzbekistan Railawy
ریل کا یہ نظام چین ، کرغزستان اور ازبکستان کو آپس میں جوڑتا ہے ۔
Asian Railway
یہ روٹ قازقستان سے ہوتے ہوئے بیلاروس اور یورپی ممالک تک جاتا ہے۔ اس تیز رفتار ریلوے نظام کے ذریعے چین ’میڈ اِن چائنا‘ کو یورپی مارکیٹ تک پھیلانا چاہتا ہے۔
Miles railway
چین 6بلین ڈالر کی لاگت سے مائلز ریلوے لائن نارتھ لاؤس، ویتنام کی دارلخلافہ تک بنارہاہے ۔
International electronic railway service
چین نے چار بلین ڈالر سے افریقہ کا پہلا ٹرانزیشنل الیکٹرونک ٹرین سروس تعمیر کیاہے جوکہ اس سال چلنا شروع ہوجائیگی۔
Gas pipelines
بنیادی طور پر چائنا سنٹرل ایشیاء کی ممالک سے گیس خریدے گا کیونکہ سنٹرل ایشیاء کی ممالک گیس سے مالا مال ہیں اور ایک حد تک غیر ترقی یافتہ ہیں۔ چین کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اسے سنٹرل ایشین ممالک کے قدرتی وسائل کی ضرورت ہوگی۔
Khorgos gatewayچائنا کو قازک بارڈر سے ملائیگا۔ اس پر2015سے کام تیزی سے جاری ہے ، جب کہ اس پروجیکٹ پر3600 ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں اور چین کے مطابق یہ منصوبہ 2020تک مکمل ہوجائیگا۔
Oil pipe lines project
2009میں پہلی مرتبہ چین اور روس کے درمیانOil Sector Reformکے معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ اس کے بعد 2014کو چین اور روس کے درمیان دیگر مختلف معاہدات پر بھی دستخط کیے گئے۔تیل اور گیس کے حوالے سے روسی کمپنیGazporm Russia,s
اور چائنا کی کمپنیCNPC.کے درمیان 400ملین ڈالر کے منصوبوں کا معاہدہ ہوا۔ چین اب اپنی تیل کی ضروریات کا بڑا حصہ روس سے حاصل کررہا ہےاس کے علاوہ اومان، سعودی عرب، وینزویلا اور ایران سے بھی چین آئل حاصل کررہا ہے ۔
Reutersکی ایک رپورٹ کے مطابق 2014کو چین کی کمپنیCPNCاور وینزویلا کے کمپنی(PDVSA)کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ، چائنا شپمنٹ ڈیل کے زریعے وینزویلا سے 10مہینوں میں 10ملیں بیرل آئل خریدا کریگا۔
AIMS OF OBOR *
چین کا دعوی ہےHistorical Heritage*اپنے پرانے روٹ کو بحال کرنا ۔معاشی و تجارتی تعلقات *standardised and linked trade *Financial integration *(یورپی یونین جیسا بنانے کا خواب )ان تمام پروجکٹس پر جو پیسے لگائے جارہے ہیں یہ پیسے دو بینک فراہم کررہے ہیں(Asian infrastructure investment bank)اورChina development bank (CDB)ہے ۔ انہی دو بینکوں سے ایک فنڈSilk road fundکے نام سے مقرر کی گئی ہے جو کہ40Billionsڈالر کی فنڈ ہے۔
چین کا موقف ہے کہ یہ پروجیکٹس 4Trillionsڈالر میں مکمل ہونگے۔ جب کہ ان کی تکمیل میں30سال لگ سکتے ہیں۔
چین کی انرجی ضروریات بہت زیادہ ہیں کیونکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے جس کی کل آبادی2015کے شمارے کے مطابق1.371billionتھی ۔چین اِن ضروریات کیلئے آئل ،پٹرول خرید رہاہے ۔اور اس کے ساتھ ہی ایک مضبوط معاشی حب بننے کی منصوبہ بندی کررہاہے ۔تاکہ امریکہ اور یورپ کو چیلنج کرسکے۔ چائنا انٹرنیشنل اکانومی بننا چاہتا ہے ۔ اپنے اس خواب کی تکمیل کے لئے اِس کی اولین ترجیح عالمی منڈی تک آسان رسائی ہے۔عالمی سیاست اور معیشت میں چین کی اثر انداز ہونے کی کوششیں لازمی طور پر اُن ممالک کو قبول نہیں ہوگی جو کہ دنیا کی سیاست اور معیشت کی بلاشرکت غیر حکمران ہیں۔ اِس کے علاوہ چین کے عسکری عزائم بھی کافی حد تک خطرناک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اس منصوبے کو انڈیا کا گھیراؤ کرنے والا منصوبہ قرار دے چکاہے۔
CPECکی تعمیر اورگوادر میں فوجی بیس کی تعمیر سے چین ہندوستان اور دوسرے ممالک کو فوجی حوالے سے بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ دوسری طرف سی پیک کے گلگت بلتستان کے منصوبوں کو انڈیا متنازعہ زمینوں پر سرمایہ کاری قرار دے کر اس منصوبے کی پہلے سے ہی مخالفت کرچکا ہے۔
چین کے اِن استعماری عزائم سے جہاں پورے خطے اور دنیا کو سنگین خطرات لاحق ہیں، وہیں سی پیک جیسے منصوبے بلوچستان کیلئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اِن منصوبوں کے تحت ایک جانب تو چین بلوچستان کی جیو پولیٹکل اہمیت سے ناجائز فائدہ اٹھائے گا۔ اور دوسری طرف بلوچستان کا استحصال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی آبادی کا ایک بڑا حصہ یہاں منتقل کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ اِس کے علاوہ چین گوادر کو اپنے جنگی عزائم کیلئے بھی استعمال کر سکتا ہے جو کہ خطے کے امن کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔
بلوچ قومی اداروں کی ذمہ دار ی ہے کہ چین اور پاکستان کے اِن مذموم عزائم کو ناکام بنانے کیلئے اپنی موجودہ جدوجہد کو مزید منظم انداز میں جاری رکھیں اور مضبوط پالیسیاں ترتیب دیں ۔ دنیا کے دیگر طاقتوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشی معاہدوں کے بھیس میں چھپے چین کے خطرناک توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف اپنا کردارادا کریں۔