مکران میں فورسز کی بربریت تسلسل کے ساتھ جاری

552

فورسز کی جانب سے بلوچستان کے مکران ڈویژن میں قتل وغارت اور شہریوں کے اغواء سمیت گھروں کو جلانے کے واقعات شدت اختیار کرچکاہے ،ایف سی کو بلوچستان میں جب سے دو حصوں میں منقسم کر کے تربت کو ایف سی ساؤتھ بلوچستان کا نام دیاگیا اور یہاں ایف سی کا ہیڈ کوارٹر بنا کر ایک آئی جی تعینات کیاگیا ہے ،ناصرف تشدد، مظالم ، اغواء، مسخ لاشوں کی برآمدگی اور اغواء برائے تاوان کے واقعات زیادہ ہوگئے ہیں بلکہ ایف سی نے سول معاملات کو براہ راست اپنی کمان میں لے کر تمام اختیارات اپنے ہاتھ لے لئے ہیں

۔کمشنر مکران سے ڈپٹی کمشنر تک اور محکمہ جات میں بالخصوص ایجوکیشن سیکٹر بالعموم تمام ادارے ایف سی کے ماتحت بن چکے ہیں ان کے سربراہاں کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں وہ ہر معاملے میں غیر قانونی طور پر ایف سی کے سامنے جوابدہ ہیں ایجوکیشن کی تمام سرگرمیوں پر ایف سی کا مکمل کنٹرول ہے اسکولوں میں فوجی پروگرامات کا ایک سلسلہ شروع کردیاگیا ہے جس کا مقصد طلباء و طالبات کی ذہن سازی کر کے انہیں جبراََ پاکستانی اور مذہبی ذہنیت کا حامل بنانا ہے۔

کئی سالوں سے پاکستانی فورسزبراہ راست اسکولوں اور کالجوں میں تقریبات کا انعقاد کررہی جس میں تمام اسکولوں کو اپنے خرچے پر ایسے تقریبات میں شریک ہونے اور بچوں کو پاکستان اور فوج کی حمایت و بلوچ تنظیموں کے خلاف تقاریرکرنے کی سخت ہدایات دی جاتی ہیں اس سال 14اگست کی مرکزی تقریب تربت میں منعقد کی گئی جس میں باقاعدہ تمام اسکولوں اور دیگر محکموں کے سربراہاں و ملازمین کو لیٹر لکھ کر شرکت کی سخت ہدایت کے ساتھ شرکت نہ کرنے پر نوکری سے برخاستگی اور دیگر نوعیت کی دھمکیاں دی گئیں تاکہ جبراََ لوگوں کو شامل کر کے دنیا کو دکھایا جاسکے کہ یہاں لوگ پاکستان پرست بن گئے ہیں اس کے باوجود14اگست کی مرکزی تقریب میں شرکت نہ ہونے کے برابر تھی حتی کہ سرکاری ملازمین بھی مکمل شریک نہ تھے ۔
ر جو قانونی طور پر ضلع کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے اور تمام انتظامی امور کی نگرانی کرتا ہے اس وقت ضلع کے معاملات میں محض ایک شو پیس کردار ہے سول انتظامیہ کو ایف سی کے سامنے دم مارنے اور اپنے سول انتظامات تک چلانے کی اجازت نہیں ہے حتی کہ معمولی نوعیت کے انتظامی معاملات چوری و ڈکیتی اور منشیات فروشی کو بھی ایف سی براہ راست ڈیل کرتی ہے پولیس اور لیویز کے بجائے ایف سی منشیات فروشوں کے گھروں میں چھاپہ مارتی ہے انہیں گرفتار کرتی ہے بعد ازاں ان سے تاوان لے کر بھاری رقم کے عوض رہا کرتی ہے ۔

مکران ڈویژن سمیت ضلع تربت میں ایف سی نے درجنوں بااثر شخصیا ت کا الگ الگ گینگ بنا کر انہیں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے انہیں بعوض ریاستی جاسوس عام لوگوں ، سیاسی کارکنوں، کاروباری شخصیات کو مارنے، تشدد کرنے ، لوٹ مار اور دیگر جرائم کی مکمل اجازت ہے یہ گینگ جب چاہیں کسی کو تاوان کے لیئے اٹھائیں ، ذاتی و خاندانی یا کاروباری مخالفین پر تشدد کریں ، انہیں لاپتہ کریں یا قتل کردیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جبکہ متشدد مذہبی گروہ ان گینگ کے علاوہ ہیں جو مذہبی لبادے میں دعوت و تبلیغ کے نام پر غلیظ ریاستی مکاری کا کام انجام دے رہے ہیں ۔ان گروہوں کو بھی ہر غیر اخلاقی دھندے کے لیئے سپورٹ فراہم کیا جاتا ہے چونکہ یہ گروہ پاکستانی فورسز کے دفاعی اثاثے کادرجہ رکھتے ہیں اس لیئے ان کی اہمیت عام گینگ یا بااثر شخصیات کے گروہوں سے زیادہ اہم ہے ۔

یہ عناصر ایک جانب مذہب کا مفاداتی استعمال کر کے عام شہریوں کے جذبات سے کھیلتے اور مذہب کے نام پر فوج کے عطا کردہ قانونی لوٹ مار کا سرٹیفکیٹ رکھتے ہیں تو دوسری جانب ان کے پاس بھاری اسلحہ و گولہ بارود موجود ہے جو تشدد کے زریعے بھی اپنا مقصد نکالتے ہیں ۔ پنجگور، تربت اور بلیدہ میں یہ گروہ منظم انداز میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں ان کی سرگرمیاں سر عام دیکھی جاتی ہیں ان میں اکثر مذہنی پیشوا کے طور پر مساجد میں اسلحہ کے ساتھ آتے ہیں۔تربت میں حاجی حسن نامی اسٹریٹجک اثاثے کی نگرانی میں جیش العدل ،لشکر خراسان اور مسلح دفاع پاکستان کے ہیڈ کوارٹر کام کررہے ہیں جبکہ ان کے مضبوط ٹھکانے پنجگور، پیدارک، بل نگور ، زامران اور بلیدہ میں قائم ہیں ۔یہ مسلح گروہ زیادہ تر ایرانی مطلوب عناصر پر مشتمل ہیں جو پاکستانی فوج کی مدد سے  بلوچ سیاسی جماعتوں کے خلاف لشکر کشی کرتے ہیں    ۔

یہ مختلف گروہ حاجی حسن کی نگرانی میں ملا عمر ، ملا غلام اللہ ،یاسرنگوری ، شاہ میر عزیز اور دیگر کی سربراہی میں کام کرتے ہیں ان کے پاس جدید اسلحہ، گاڑیاں اور موٹر سائیکل موجود ہیں دشت اور پیدارک کے اکثر علاقوں میں ان کا ایف سی کے ساتھ مشترکہ ٹھکانہ ہے ایف سی کی جتنی چیک پوسٹ اور چوکیاں ہیں وہاں ان گروہوں کی موجودگی بھی ہے ۔
اوہ ضلع کیچ میں ایف سی نے معاشی زرائع پر قبضہ جمالیا ہے چونکہ ایرانی بارڈر سے روزمرہ اشیاء اور پٹرول کی اسمگلنگ کے زریعے مکران کی معاشی پہیہ چل رہی ہے یہ کاروبار بھی ایف سی نے عام افراد سے لے کر اپنے چہیتے گروہوں کے سپرد کردیا ہے چند مدت سے تاوان کی رقم کے معاملے ایف سی اور ان کاروباری اشخاص کے درمیان ان بھن کی وجہ سے معاملات خراب ہیں ایف سی کا خیال ہے کہ یہ گروہ امکانی طور پر کاورباری مقاصد کی خاطر بلوچ جماعتوں کو مالی سپورٹ کرتی ہیں اس لیئے ایف سی کی کوشش ہے کہ یہ کاروبار اپنے مرتب کردہ بااثر شخصیات کی گینگ کے سپرد کیا جائے اس کے لیئے راشد پٹھان اور لالہ رشید کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی جو بار آور ثابت نہ ہوئے ۔

لالہ رشید تربت میں ایف سی اورآئی ایس کا انتہائی خاص بندہ ہے جو ناصرف مسلح گروہوں کی نگرانی کرتی ہے بلکہ اسے سیاسی طور پر بھی منظم کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ اس وقت بی این پی مینگل میں شامل ہے جبکہ کاروباری سرگرمیوں سے لا تعلق ہونے کے باوجود مقامی انجمن تاجران کا اسے جبری صدر بنادیا گیا ہے۔

غرض یہ کہ اس وقت ایف سی اپنے مسلح مذہبی و غیر مذہبی گروہوں کے ہمراہ تمام معاملات سیاسی و سماجی، معاشی اور تعلیمی پر قبضہ جماچکی ہے ۔اس سے عام شہریوں اور سرکاری ملازمین بشمول مختلف سول محکموں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے انہیں ایف سی اور ان کے مسلح گروہوں کے سامنے ہر معاملے میں جوابدہ ہونا ہے ۔