ماضی اور حال کا کامریڈ

662

تحریر: دلجان بلوچ

ستر کی دہائی میں جب بلوچوں نے بغاوت کی تو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جنگ چھڑ گئی کوہستان مری، وڈھ اور قلات میں مختلف محاذوں پر دشمن پر حملے ہونا شروع ہو گئے. کاہان میں شیرو مری تو وڈھ میں علی محمد مینگل دشت گوران میں لونگ خان تو زھری کے پہاڑوں میں سفر خان اور قلات مشکے میں اسلم گچکی، بی ایس او کے چیرمین خیر جان بلوچ عبدلنبی بنگلزئی برسر پیکار تھے۔ دشمن کے خلاف ان بڑے نامی گرامی شخصیات کے ساتھ اور کئی گمنام سپاہی مادروطن کی آزادی کے لیے جہدو جہد کررہے تھے، ان گمنام ناموں میں ایک نام کامریڈ فقیر کا تھا، جو بلوچ قبائل میں ایک کمزور قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ کامریڈ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تو تھا لیکن اس غربت میں بھی کامریڈ کے دل میں وطن کیلئے اتنی ہی محبت تھی جتنا دوسرے متعبر ناموں کے دلوں میں تھا. بلکہ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حقیقی انقلاب اور تبدیلی غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی برپا کر سکتے ہیں۔ کامریڈ بھی دوسرے گوریلوں کی طرح وطن کے عشق میں خاک چھاننے لگا. وہ ہر وقت ہر محاذ پر تیار رہتا کبھی بھی وہ کسی سے پیچھے نا رہا اس کی آنکھوں میں اوروں سے زیادہ وطن کے عشق کو محسوس کیا جاسکتا تھا. نوجوان تھا خون گرم تھا انقلابی سوت سن کر اس کا خون اور گرما جاتا. 73 میں گوریلوں کی اکثریت پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن کامریڈ پڑھنا لکھنا اچھی طرح جانتا وہ اکثر بی بی سی کے خبر سن کر پھر بلوچی میں اپنے باقی دوستوں کو سمجھا تھا۔ کامریڈ ہر کام میں پیش پیش تھا وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ جو کام کرنا ہے انھیں کرنا ہے کبھی راشن لانا ہوتا یا کسی دوسرے کیمپ کمانڈ کو پیغام پہنچانا ہوتا وہ ہمہ وقت تیار تھا، کیونکہ اسے آزادی کی قیمت شعوری طور پر معلوم تھی۔ اس کے ہاتھ کبھی کوئی اخبار لگتا یا کوئی کتاب تو وہ اسے پڑھنے بیٹھ جاتا۔ باقی دنیا کے دیگر ملکوں میں ازادی کی جنگوں پر بھی اس کی نظر تھی بلوچ گوریلوں کو جب بھی موقع ملتا وہ دشمن پر حملہ کرتے، کامریڈ بھی اکثر حملوں میں ان کے ساتھ ہوتا اور جنون کی حد تک دشمن پر وار کرتا۔ وہ فارغ وقتوں میں اکثر آزادی کے گانے گنگناتا اور خوشی خوشی اپنے حصے کے روزمرہ کاموں کو سرانجام دیتا تھا۔

دشمن نے ہر طرح سے زور آزمائی کی لیکن بلوچ گوریلوں کو ختم نہ کرسکا آخر کار دشمن نے اپنی چال بدل لی اور عام معافی کا اعلان کیا بہت سے بڑے کمانڈروں کو پرآسائش زندگیاں بسر کرنے کی پیشکشیں ہوئی۔ بہت سے نامی گرامی کمانڈر دشمن کے اس چال میں آگئے اور ہتھیار پیھینکنا شروع کردیا جو بھی کمانڈر سرنڈر کرتا تو اس کے انڈر موجود تمام سپاہی سرنڈر ہوتے کیوں کے اکثریت جنگ میں ان لوگوں کی تھی جن کا کوئی بڑا معتبر اس لڑائی میں ساتھ تھا. جب ان کا سرکردہ سرنڈر کرتا تو ان کے لیے بھی کوئی راستہ نہیں باقی رہتا اور نہ ہی کسی نے ان کی اتنی سیاسی تربیت کی تھی کے تمہاری جنگ کسی ایک شخص کی خاطر نہیں بلکہ تمھاری بندوق سے نکلنے والی گولی، وطن کے سینے پر بڑھنے والے تمھارے چار قدم تمھاری قوم تمھاری سر زمین کے لیے ہیں.

کامریڈ تو خالصتاً وطن کی ازادی کے لیے چل پڑا تھا. وہ کسی شخص کسی میر متعبر کی خاطر نہیں آیا تھا اسے تو وطن کے عشق نے ان پہاڑوں میں رہنے پر مجبور کیا تھا وہ تو آزادی کا خواب لیے دن رات پہاڑوں میں محو سفر تھا اس نے تو گھر میں ماں سے یہ کہہ کر آیا تھا کہ واپس گھر یا تو اس کی لاش آئے گی یا وہ ایک آزاد وطن کے ازادی شہری کے طور پر گھر میں داخل ہوگا. اب وہ سوچ رہا تھا ان میں سے تو وہ ایک بھی تو نہ لا سکا وہ دشمن کی ہر گولی سے اپنے آپ کو بچاتا کہ ابھی اسے اور مزید کئی کام کرنے ہیں، ابھی تو اس کے شھید دوستوں کے خون بھی تو خشک نہیں ہوئے تھے جن کے ساتھ اس نے وعدہ کیا تھا کہ ان کی شہادت ضرور رنگ لے آئے گی۔ ابھی تو ان کی بند ہوتی ہوئی آنکھوں میں موجود آزادی کا خوب اسے یاد تھے، ان کے خاموش چہرے پر ابھی آزادی کی امنگ باقی تھی، وہ تو ان سب کے محفل کا ساتھی تھا جو ایک ایک کر کے سر زمین پر قربان ہوئے۔ ان سے تو وعدہ بھی کیا تھا کے آخری سانس تک آزادی کی جنگ لڑینگے. وطن کی چاہ میں جو پہلے مارا گیا تو دوسرا اس کے حصے کی زمہ داریوں کو پورا کرے گا. ایک ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں تھی. یہ سب وعدے ارادے چھوڑ کر وہ کیسے واپس جا سکتا تھا لیکن وہ پھر سوچنے لگا سب تو واپس جارہے ہیں. وہ اکیلا کیا کر سکتا ہے وہ بھی باقیوں کی طرح آنکھیں جھکاکر گھر میں داخل ہوا پھر نا چاہتے ہوئے بھی معاشرے کے ساتھ اسے چلنا پڑا۔

آج کی جنگ میں بھی کئی ایسے کامریڈ موجود ہیں اور کئی 73 کی طرح نامی گرامی شخصیتیں بھی اور یہ جنگ باقی جنگوں سے طویل ہے اور مختلف بھی. اب تک ہزاروں کامریڈوں نے قربانیاں دی ہیں اور کئی کامریڈز جدو جہد میں شامل ہیں۔

تہتر کی طرح 2015 میں بھی دشمن نے پھر اپنے پرانے سرنڈر کی چال چلی بہت سے کمزور جہد کار تو واپس چلے گئے لیکن لیڈر شپ اور اہم کمانڈر اپنے کئی کامریڈز کے ساتھ مل کر جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ان جہد کاروں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سرنڈر کا یہ گاجر ان کے سامنے بھی دشمن خوبصورت بنا کر پیش کریکا اگر خدا نا خواستہ لیڈر شپ یا کمانڈرز دشمن کے اس چال میں آگئے تو انھیں یہ بات ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ماضی کے کامریڈ سے موجودہ دورکا کامریڈ بہت الگ ہے. آج کا گوریلا ہر لحاظ سے مکمل لیس ہے. اگر وہ گھر چلے گئے اور یہ سمجھنے لگے کے جو تھے ہم تھے اب اور کوئی نہیں ہے پہاڑوں میں تو وہ غلطی پر ہونگے آج کا کامریڈ تحریک کے ان نشیب فرازوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور اتنے سال کی جنگ میں وہ یہ سیکھ چکے ہیں کہ جنگ کو جاری کیسے رکھا جاتا ہے۔ دشمن پر کب کہاں کیسے حملہ کرنا ہے مالی کمک کیسے حاصل کرنا ہے۔ آج کے معتبر لیڈروں کمانڈروں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ جنگ اب بڑے ناموں کی خاطر نہیں لڑی جا رہی بلکہ آج کی تحریک اس ازادی کے لیے لڑی جارہی ہے جس آزادی کے خواب کو آنکھوں میں سجائے کئی کامریڈ شھید ہوچکے ہیں، کئی کامریڈز دشمن کے ٹارچر سیلوں میں اذیت سہہ رہے ہیں. آج لیڈر شپ کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ بلوچ نوجوان ایک خالص سوچ لیکر گھروں سے نکلے ہیں. آج کا نوجوان لائبریریوں سے نکل کر پہاڑوں تک کا سفر کرنے والا نوجوان ہے. آج کے نوجوان کامریڈ کو کوئی لیڈر اپنے بکریوں کا ریوڑ نہ سمجھے. آج کے گوریلے کو کوئی روبوٹ مشین نہ سمجھے کہ جب کام لیا تو لیا جب سوئچ آف کردیا تو کام خلاص۔.

آج آپ کو یا عام سپاہی کو قوم نے قبول کیا ہے تو آپ کے کام کی وجہ سے کیا ہے۔ آج ہم سب کی وجہ شہرت ہمارا کام ہے ہماری قربانیاں ہیں، آج ہماری قبولیت کی وجہ ہماری بے غرض سوچ ہے. آج ہم قوم کے اندر جو مقام رکھتے ہیں اس میں ایک ٹیم ورک کا عمل دخل شامل ہے۔ کہیں کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ تالی میں نے ہی ایک ہاتھ سے بجائی ہے. جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں شاید وہ اپنے حواس میں نہیں ہیں۔ اس جنگ کی فتح باہمی اشتراک کے مرہونِ منت رہے گا اور آزادی کے تناور درخت کا سایہ ہو یہ پھرناکامی سب کا مشترک ہوگا۔ اب کے بار کوئ یہ نا سمجھے کے وہی تنہا سیاہ و سفید کا مالک ہے کہ جب چاہے رکے اور جب چاہے چلے۔