جب موجودہ مزاحمت شروع ہوچکا تھا، اس وقت تمام بلوچوں خاص کر مری اور بگٹی قبیلے میں ایک سوچ موجود تھا کہ پاکستان کے سامنے سلامی ہونا، مزاحمت اور دوستوں کو چھوڑ دینا خوف و پیسوں کی خاطر تحریک سے دستبردار ہونا بدترین بزدلی اور بدنامی ہے۔ سلامی تو نا ممکن اور دور کی بات تھی وہ ایسا شاید سوچتے بھی نہیں ہونگے، خاص کر مری قبیلے کے بلوچ یہ تک سوچتے تھے کہ اگر کوئی دشمن کی حراست میں دوران ٹارچر کوئی تنظیمی راز بحالت مجبوری افشاں کرتا تو وہ بھی انتہاہی قابل نفرت، شرمناک عمل گردانا جاتا۔ بزدلی غداری اور دوستوں کے ساتھ دغاباذی میں شمار ہوتا ہے یعنی بلوچی غیرت و عزت کے حوالے سے بہت بڑا میار ہوتا تھا کہ فلاں شخص فلاں ٹکر کا بندہ پنجابی دشمن کے سامنے بدنام زمانہ قلی کیمپ میں سر جھکا کر آگیا اور تنطیم و دوستوں کے بابت دوران ٹارچر کچھ راذ دے دیا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب کیوں وہی بلند بلوچی میار اور بلوچی سوچ کے مالک لوگ دھڑا دھڑ بغیر تکلیف، شرم اور ٹارچر کے بلوچی پگڑی باندھ کر دشمن کے سامنے سلامی ٹھوک کر پاکستانی جھنڈے کو ہوا میں لہرا ر ہے ہیں؟ وجوہات کیا ہیں ؟ذمہ دار کون ہے؟ لوگوں کو اس حالت اور سوچ پر لا کھڑا کرنے والے ہاتھ کن کن کے ہیں؟
اگر ہم صرف اس دلیل اور موقف پر اتفاق اور تکیہ کریں کہ خوف، بزدلی اور دشمن کی ظلم و جبر اور بربریت اسکا ذمہ دار ہے یا تحریکوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے ۔ یہ حقائق بھی اپنی جگہ ایک حد تک درست ہیں لیکن شاید ہم جب تک اصل مسئلے کو سمجھ نہیں پائینگے اس وقت تک ہم خود اپنے ساتھ ناانصافی کرتے رہینگے۔
بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، تاریخ کے صفحوں کو ٹٹولنے کی ضرورت نہیں ہے، ایوب اور بھٹو دور کی بربریت پاکستان اور ایران کی مشترکہ فضائی آپریشن کو بھی یاد کرنے کی ضرورت نہیں جب مری علاقے چمالنگ میں اس وقت قریباً ڈھائی ہزار سے زیادہ بلوچ خواتین، بچے اور بزرگوں کی نسل کشی ہوئی۔ افغانستان میں درپدری زیرِ بحث نہیں ہے۔
ہم صرف حالیہ مری علاقے میں شہید نواب اکبرخان کے خلاف پاکستانی فوجی آپریشن ، مری اور بگٹی قبیلے کے بلوچوں کی کشت خون یا اس سے چند سال پہلے بے شمار خواتین اور بچوں کے قتل عام اور اغواء اور جنگ کی شدت دیکھیں تو وہ کسی طور کم نا تھے۔ بقول شہید بالاچ مری کے کہ تراتانی آپریشن تاریخ میں ایک اور جنگ کربلا تھا لوگ پانی کی ایک بوند کیلئے ترس رہے تھے کئی دن تک دن و رات انتہاہی طاقت کے ساتھ پاکستانی فوجی بربریت جاری تھی۔
میرے خیال میں آج تک اس طرح کے بڑے پیمانے کا فوجی آپریشن بلوچستان کے کسی اور جگہ پر نہیں ہوا ہے گو کہ اب روزانہ کی بنیاد پر پورے بلوچستان میں آپریشن جاری ہے۔ اگر کوئی کہے کہ دشمن کے سامنے سلامی کی اہم وجہ ریاست پاکستان کی بربریت اور تشدد کی تیز لہر ہے تو اس وقت یعنی 2006 میں کتنے بلوچ خاص کر مری قبیلے کے لوگ پاکستانی دشمن کے سامنے سلامی ہوئے؟
جب 2008 سے پاکستان نے باقاعدہ یہ فیصلہ کرلیا کہ بلوچوں کو اٹھاکر قلی کیمپوں میں تھرڈ ڈگری ٹارچر کا نشانہ بنا کر ان کی آنکھیں، دانت، ناخن حتیٰ کہ پیٹ پھاڑ کر دل اور گردے نکال کر پھر لاش میدان میں پھینک دیتا، تاکہ دوسرے بلوچوں کیلیئے عبرت کا نشان بنایا جائے اور اس پر باقاعدہ روذانہ کی بنیادوں پر عمل درآمد شروع ہوا، خاص کر 2010 سے لیکر 2013 تک یہ دہشت اور خوفناک عمل کی شدت انتہاہی تیز تھا جو اب بھی جاری ہے۔ تو پھر کیا اس وقت خوف اور لالچ نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھا؟ پھر کیوں کوئی بلوچ سلامی کا نام ہی نہیں لیتاتھا؟
بلکل پاکستانی حکمران اور میڈیا کا گمراہ کن پروپگینڈہ جس میں عام بلوچوں کو مزاحمت کار ظاہر کرنا، جھوٹ بولنا، بلیک میلنگ، دھمکی اور عام معافی کا دھوکا نما کارڈ استعمال کرنا، لوگوں کو بے وقوف بنانا شامل ہیں لیکن یہ سب اپنی جگہ لوگوں کی مایوسی خوف، بزدلی، بدظنی اور ناراضگی میں زیادہ تر حصہ ہمارے آپسی اختلافات، آپسی لڑائی، غلط پالیسیوں، غلط فیصلوں، غیر انقلابی رویوں، نالائقیوں اور کوتاہیوں کا مرہون منت بھی ہے، جس سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔
سلامی کرنے والے لوگ یہ بھی بخوبی جانتے ہونگے کہ پنجابی دشمن ہمیں سلامی کے بعد بھی معاف نہیں کریگا وہ یہ بھی جانتے ہونگے کہ دھوبی کے کتے کی طرح وہ نہ ادھر کا رہینگے اور نہ ادھر کا، اس کے باوجود یہ بے شرمی اور لعنت کے زندگی کے چند دن اپنانا آخر کیوں؟
قوموں اور تحریکوں میں مفاد پرست اور بزدل طبقہ موجود ہوتا ہے اور پیدا ہوتے رہینگے لیکن اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں، فیصلوں اور رویوں پر غور کریں۔ دشمن کے اس گمراہ کن پروپگینڈے کو جھوٹ اور دھوکہ ثابت کرنا ہوگا جو ہمیشہ کہتا آرہا ہے کہ یہ آپ لوگوں کے لیڈر ایک دوسرے کو برداشت نہیں کررہے ہیں۔ یہ اپنے لیڈری اور پیسوں کیلئے آپس میں لڑرہے ہیں۔ آپسی اختلافات جو بھی ہیں لیکن آج قوم میں دشمن کے یہ خطرناک اور با اثر پروپگینڈہ اثرانداز ہورہا ہے اور لوگوں کی بدظنی اور راہِ فراریت کی اہم وجہ ثابت ہورہی ہے۔ اگر جلد اس پہلو پر ہمارے لیڈاران صاحبان سنجیدگی سے توجہ نہیں دیتے اور آپس میں عملاً ایک ساتھ نہیں ہوتے تو شاید ریاست کا یہ پروپگینڈہ قوم میں مزید پختہ ہوگا جس کے باعث تحریک مزید نقصان سے دوچار ہوگا۔