خضدار میں فوج کا ‘آپریشن کلین سوئیپ’، شہر بھر میں گھرگھر تلاشی جاری۔
گزشتہ ماہ سے جاری پاکستانی فوج کا “آپریشن کلین سوئیپ” خضدار کے دیہی علاقوں کے بعد شہری علاقوں تک پہنچ چکا ہے۔ گذشتہ دو دنوں سے شہرمیں جاری آپریشن میں اب تک چمروک، اسد آباد، علی ہسپتال روڈ اور چاندنی چوک کے علاقوں میں گھرگھر تلاشی لی گئی ہے۔
اس آپریشن میں نیم فوجی دستوں کے ساتھ کھوجی کتے اورایف سی کے خواتین اہلکار شامل ہیں۔
زرائع کے مطابق ان دستوں کے ساتھ لیویز کی گاڑیاں بھی شامل ہیں، مگر تلاشی لینے کا سارا کام فوجی اہلکار کر رہے ہیں۔ دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے ایک علاقہ مکین نے بتایا کہ، ” ہم نے انھیں بتایا ہمارے گھر میں کچھ بھی نہیں ہم غریب لوگ ہیں، مگر وہ پھر بھی کچھ ڈھونڈنے میں لگے تھے، انھوں نے ہمارے گھر میں رکھے آٹے کی بوری کو زمین پر گرا کر ضائع کردیا، غریب کا سونا تو اسکا آٹا ہے”۔
آپریشن کی شروعات خضدار کے نواحی علاقے بازگیر سے ہوئی ، جہاں کے رہائشیوں نے دورانِ تلاشی اپنے زیورات اور پیسے چوری ہونے کی شکایت پولیس تھانے میں جمع کر دیا ۔
دورانِ آپریشن اب تک ایک شخص کے اغواء ہونے کی اطلاع ملی ہے، جس کی شناخت گزین گزوزئی کے نام سے ہوئی ہے جس کا تعلق بلوچستان کے علاقے مشکے سے ہے۔
خیال رہے 2006 سے 2014 تک خضدار شہر بلوچستان میں سب سے شورش زدہ علاقہ تصور کیا جاتا تھا، جہاں بلوچ آزادی پسند تنظیموں سے لیکر فوج کے ماتحت چلنے والی ڈیتھ اسکواڈز متحرک تھے۔ شہر میں اوسطاََ ہر روز ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوتے تھے اور ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں عوام یرغمال تھا۔
نواز حکومت کے آنے کے بعد نئی ‘بلوچستان کاونٹر انسرجنسی پالیسی’ بنائی گئی، جہاں ڈیتھ اسکواڈوں کا کام پورا ہونے پر انھیں واپس زیرِ زمین بھیجا گیا۔ گو کہ شفیق مینگل نامی مذہبی شدت پسند نے زیرِ زمین جانے کے بعد وڈھ کے علاقے باڈڑی میں ٹریننگ کیمپ کھول رکھے ہیں، جہاں مذہبی شدت پسند تنظیموں کے کارندے ٹرینگ حاصل کرنے کے بعد بلوچستان و پاکستان میں کاروائیاں کرتے ہیں، اس کبات کا انکشاف جیکب آباد اور کراچی میں پکڑے جانے والے مذہبی شدت پسندوں نے کیا ہے۔ انھوں نے دوران تفتیش بتایا ہے کہ انھیں ٹریننگ بلوچستان کے علاقے وڈھ(باڈڑی) سے ملی ہے۔
بین الاقوامی تنظیم ”Reporters without Borders” نے سال 2011 میں ایک رپورٹ شائع کیا تھا جہاں دنیا بھر کے ایسے دس شہروں کے نام درج تھے جو دنیا میں صحافیوں کے لیئے سب سے زیادہ خطرناک ہیں، اور اس لسٹ میں خضدار چھٹے نمبر پر تھا۔ رپورٹ کی تفصیلات میں صحافیوں کے قتل کے حوالے سے آزادی پسندوں کے خلاف بنائی گئی سرکاری تنظیم ‘ بلوچ مسلح دفاع’ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
حکومتی پالیسی کے تحت ڈیتھ اسکواڈز کی جگہ اب مقامی لیویز فورس کو منظم کرکے ایک ایسا فورس بنایا گیا ہے جو پاکستانی فوج کے زیرِ اثر کام کرتی اور اسکی پرانی خود مختاری ختم کردی گئ ہے۔ گزشتہ تین سال سے خضدار شہر میں ڈبل سواری پر مکمل پابندی عائد ہے اور خلاف ورزی کرنے پر لیویز اہلکاروں کی جانب سے عام عوام کی تذلیل کرنا اب معمول بن چکا ہے۔ ہمارے نمائندے سے بات کرتے ہوئے ایک طالب علم نے بتایا،” میری طبیعت خراب تھی اور میرا دوست مجھے ڈبل سواری کرکے ہسپتال لا رہا تھا کہ کھٹان ندی پر کھڑے لیویز اہلکاروں نے ہمیں روک لیا اور میری بات سنے بغیر مجھے اور میرے دوست پر تھپڑ برسانہ شروع کردیے، ہمیں شام تک تھانے میں بند رکھا، جب میری بگڑتی طبیعت دیکھی تو شرم کے مارے انھوں نے ہمیں واپس جانے دیا”۔
خیال رہے خضدار شہر میں فوج کے دو بریگیڈ ‘ستر بریگیڈ’ اور ‘تھری ایس ایم جی’ واقع ہیں، اسکے علاوہ ایف سی کے دو بڑے کیمپ، ‘کھٹان کیمپ’ اور ‘بازگیر کیمپ’ بھی موجود ہیں، فوجی اور نیم فوجیوں کی اتنی بڑی نفری بھارت کے بارڈر پر بھی تعینات نہیں جتنا پانچ لاکھ کی آبادی والے شہر میں ہیں،اسکے باوجود خضدار شہر گزشتہ ایک دہائی سے بد امنی کا شکار ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینئیر بلوچ تجزیہ کار نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، خضدار میں فوج کی اتنی بڑی نفری بنا مطلب کے وہاں تعینات نہیں، انکے بقول خضدار پاکستان کے لیئے انتہائی اہمیت کا حامل شہر ہے، کیونکہ پاکستانی فوج نے خضدار کے علاقے کھوڑی میں اپنے کیمیائی ہتھیاروں سے لیکر جوہری ہتھیار تک زخیرہ کر رکھا ہے۔ خضدار کا علاقہ خشک ہے اور خشک پہاڑ اسلحہ زخیرہ کرنے کےلیئے مثالی مقام ہوتا ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کے حوالے امریکی ادارے نے بھی ایک انکشافیرپورٹشائع کی تھی۔
خضدار شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور ایک ایک شہری پر نظر رکھنے لئےایف سی، لیویز اور پولیس نے ایک مشترکہ کنٹرول روم قائم کرلیا ہے، جہاں سے وہ مشترکہ طور پر شہر اور شہریوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان تمام اقدامات کے بعد خضدار شہر ایک قید خانے کا منظر پیش کر رہا ہے، جہاں ہونے والا ہر کام قیدیوں کو مزید محدود کرتا ہے اور یہاں بھی انتظامیہ و فوج نے عوام کو گھروں تک محصور کر رکھا ہے۔
سابق وزیراعلی ڈاکٹر مالک خضدار شہر میں امن قائم کرنے کو اپنی سب سے بڑی کامیابی گردانتے ہیں مگر حالیہ واقعات کے تناظر میں انکے اس دعوے میں صداقت نظر نہیں آتی۔ خیال رہے چند روز قبل خضدار شہر میں پاکستان ایف سی کی سربراہی میں ٹرمپ مخالف ریلی نکالی گئی تھی جس کی گزرگاہ پر بعد میں پہلے سے نصب بم کو اڑا دیا گیا تھا، اسکے علاوہ گزشتہ ہفتے پاکستانی فورسز کے سامنے سرنڈر کردہ دو سابقہ جنگجووں کو ایک آزادی پسند مسلح تنظیم نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔
بڑھتے ہوئے مسلح کاروائیاں اور فوج کی جانب سے گھر گھر آپریشن میں خضدار کا عوام یرغمال بن چکا ہے، انکے نقل و حرکت کی آزادی غصب ہوچکی ہے، ڈر اور خوف کے اس عالم میں مقامی آبادی ایک بار پھر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہورہیہے۔