جہادی و شدت پسندی کے نظریہ دان پنجاب میں بیٹھے ہوئےہیں: اے اپن پی

232

بلوچستان میں ظلم ہورہا ہے  جو لاپتہ افراد کا معاملہ ہے، جو لاشیں ملنے کا سلسلہ ہے، حکومتی ادارے اس الزام سے خود کو نہیں بچا سکتے کہ وہ بلوچستان میں ہلاکتوں میں ملوث ہیں۔ ’ایسے کئی شواہد موجود ہیں کہ وہ ملوث رہے ہیں۔

جہاں جہادی اور شدت پسندی کے نظریہ دان پنجاب میں بیٹھے ہوئےہیں

ان خیالات کا اظہار پشتون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنما نے ایک عالمی نشریاتی ادارے کیا انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ریاست اب تک انتہا پسندی کے کارخانے چلارہی ہے اور جب تک یہ جاری رہیں گے معاشرے سے انتہا پسندی ختم نہیں ہو سکتی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ثبوت ہے ان کے پاس کہ ریاست یہ کام کر رہی ہے تو عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا ’جیسے طالبان یہاں بیٹھے ہیں، کالعدم تنظیمیں ہیں جو جلسے جلوس کرتی ہیں، ان کے خلاف کارروائی نہیں ہورہی۔ تو ظاہر ہے کوئی نہ کوئی تو ان کی سرپرست ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ان تنظیموں کے خلاف جان بوجھ کر کارروائی نہیں ہورہی اور سیاسی ارادے کی کمی ہے۔ ’خصوصاً پنجاب میں کارروائی نہیں ہوئی جہاں جہادی اور شدت پسندی کے نظریہ دان بیٹھے ہوئے ہیں۔‘

ان کے مطابق ان عناصر کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ’اگر آپ پرانی افغان پالیسی چلائیں گے تو اس کے لیے آپ کو نان سٹیٹ ایکٹرز کی ضرورت پڑے گی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خاص طور پر پنجاب میں سیاسی مصلحت اور کچھ ووٹ پاکٹ برقرار رکھنے کے لیے بھی ان کے خلاف کارروائی سے گریز کیا جارہا ہے۔ تو سیاسی مقاصد کے لیے ملکی مفادات کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ سرتاج عزیز نے گذشتہ برس آن ریکارڈ کہا کہ طالبان لیڈرشپ پاکستان میں بیٹھی ہوئی ہے۔ ان کے بقول یہ تو یہ کوئی الزام نہیں تھا بلکہ حکومت کے ایک ذمہ دار شخص نے بات کہی ہے۔

ان سے پوچھا گیا کہ کیا اب بھی طالبان قیادت پاکستان میں موجود ہے، تو انھوں نے کہا کہ ’ظاہر ہے اب تک کسی نے اس کی تردید تو نہیں کی۔‘

افراسیاب خٹک نے کہا کہ ملک کی خرابی میں سویلینز نے بھی کردار ادا کیا ہے لیکن فوجی حکمرانوں نے سب سے زیادہ قانون توڑا ہے۔

’سویلینز نے جو خرابی کی ہے اس کے ٹھیک کرنے کا طریقہ بھی موجود ہے۔ لیکن مارشل لا لگانا سب سے بڑی خرابی ہے، سویلین تو مارشل لا نہیں لگا سکتے۔ لیکن اگر ریاست کے بنیادی قانون کی خلاف ورزی کی جائے تو اس نے لاقانونیت جنم لیتی ہے اور کرپشن بھی ملک میں مارشل لا کی وجہ سے پھیلی ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ فوجی حکمران کہتے ہیں کہ ملک نے ڈکٹیٹرشپ میں ترقی کی اور جب بھی سویلنز آتے ہیں وہ صرف لوٹ اور کھسوٹ کرتے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما نے کہا کہ وہ یہ بات ٹھیک نہیں کہتے۔ ’وہ جو نام نہاد ترقی ہے اور وہ جو نام نہاد استحکام ہے اس کے نتائج پر نظر ڈال لیجیے۔ ایوب خان کے مارشل لا کے دس سال بعد پاکستان ٹوٹ گیا۔ ابھی تک حمودالرحمٰن کمیشن کی رپورٹ نہیں چھپی، کارگل کے واقعے کی تحقیقات نہیں ہوئیں۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ اگر یہ رپورٹیں سامنے آتیں تو جنرل مشرف جیسے لوگوں کو یہ بات کہنے کا موقعہ نہیں ملتا۔‘

بلوچستان کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے افراسیاب خٹک نے کہا کہ ان کی پارٹی پرتشدد تحریک اور علیحدگی کے حق میں نہیں لیکن بلوچستان میں مظالم بھی ہورہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ جو لاپتہ افراد کا معاملہ ہے، جو لاشیں ملنے کا سلسلہ ہے، حکومتی ادارے اس الزام سے خود کو نہیں بچا سکتے کہ وہ بلوچستان میں ہلاکتوں میں ملوث ہیں۔ ’ایسے کئی شواہد موجود ہیں کہ وہ ملوث رہے ہیں۔ اس لیے ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔‘