جنیوا میں فری بلوچستان پوسٹرز مہم اور پاکستان
راشد حسین
دی بلوچستان پوسٹ
آزادی انسانوں کا بنیادی حق ہے۔ انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے کسی کو یہ جائز اختیار نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے بنیادی حقوق پر جبراً ڈاکہ ڈالے ۔
دنیا کے کسی دوسرے مذہب سے اگر ہم اختلاف رکھیں تو صحیح اگر ہم اپنے مذہب اسلام کی تعلیمات کی روح سے دیکھیں تو اسلام نے اس بات پر سختی سے منع کیا ہوا ہے کہ ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے زمین، جائیداد، وسائل یا کسی دوسرے چیز پر زبردستی اور ناجائز قبضہ نا کرے۔ جبکہ اسلام نے مسلمانوں کو اس طرح کے کسی قبضے یا ظلم و جبر کے سامنے مزاحمت کو اسلامی اصولوں کے عین مطابق قرار دیا ہے۔
دنیا کے تمام ممالک اور دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے انسان اپنے ہی اخذ کیئے گئے اس اصول کا باضابطہ پابند ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان کا کبھی استحصال نہیں کرے گا اور اس طرح کے غیر انسانی ظلم اور ناانصافی کے خلاف مظلوم کے حق میں آواز کو اپنی اخلاقی اور انسانی زمہ داری سمجھتے ہیں۔ ان باتوں کو جنیوا کنونشن میں باضابطہ طورپر عالمی سطح پر قانونی شکل بھی حاصل ہے۔
دنیا کے نقشے پر موجود کوئی بھی ذی شعور اس بات سے آنکھیں نہیں چرا سکتا ہے کہ بلوچ قوم ایک آزاد قوم اور آزاد سرزمین کا مالک تھا، جو اس وقت پاکستان کے جبری قبضے کا شکار ہیں، جہاں پاکستان ظلم جبر اور انسانی جرائم کا مرتکب ہوکر بلوچ قوم پر سختیوں کے پہاڑ توڑ کر بلوچوں کے تمام انسانی حقوق اور آزادی کا حق سلب کر چکا ہے۔
بلوچ قوم اپنی آزادی کے جہد میں برسرپیکار تمام جہموری اخلاقی اور عالمی قوانین کا پابند ہو کر بلوچستان سمیت دنیا بھر میں اپنی بنیادی حق آزادی کے حمایت کے حصول کے خاطر مختلف قسم کے احتجاج اور سیاسی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے دنیا کے ہر کونے تک اپنی آواز پہنچا رہے ہیں۔ مگر عالمی برادری کے مہذب ہونے کے دعووں کے باوجود، بلوچستان میں ہونے والے خوں آشامیوں کی جانب توجہ دینے کی بجائے پاکستانی ظلم اور بربریت کے سامنے چپ سادھے ہوئے ہیں۔
حالیہ دنوں سوئٹزرلینڈ کے شہر جینوا میں بلوچستان ہاوس نامی کسی ادارے نے بلوچستان کی آزادی اور پاکستانی مظالم کے خلاف اپنا احتجاج درج کرنے کیلئے ایک سیاسی اور جہموری مہم چلا کر دنیا کو بلوچستان کی گمبھیر صورتحال اور بلوچ نسل کشی کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس مہم کو دنیا کے تمام پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا نے کافی کوریج دی اور مختلف میڈیا چینلز پر اس حوالے سے پروگرام نشر ہوئے۔
پاکستان اس احتجاجی مہم سے کافی کوفت اور دباو کا شکار ہوا۔ جس کی حواس باختگی کا یہ عالم تھا کہ اسکی چیخیں نہ صرف پاکستان کے نام نہاد آئین ساز ادارے پالیمنٹ تک میں سنائی دے رہے تھے بلکہ اس مہم کو کاونٹر کرنے کے لئے اسے بھارتی ایجنسی را کی سازشں اور کارستانی تک قرار دیتے رہے۔دریں اثناء سوئس حکومت سے پوسٹریں ہٹوانے کیلئے التجائیں بھی کرتے رہے ۔
اپنے دوغلے پالیسیوں سے دنیا کو بیوقوف بنانے کی جتن میں مصروف پاکستان اب ایک اور چالبازی میں مصروف بلوچستان پر اپنے جبری قبضے اور مرتکب ہوئے انسانی جرائم سے بری الزمہ ہونے کی خاطر اپنے جھوٹے پروپگینڈہ مشینری میں تیزی لاچکا ہے لیکن اب اسکو شاید اندازہ نہیں کے اسکا یہ دوغلہ پن آشکار ہوچکا ہے اور اب کوئ اس پر یقین نہیں رکھتا۔ اس لیئے اب بلوچستان میں اس احتجاجی مہم کے خلاف اپنے قائم کردہ دلال ڈیتھ اسکواڈ اور دوسرے زرخرید ایجنٹوں کے زریعے احتجاج کر کے دنیا کو مزید بیوقوف بنانے سے تو رہا بہرحال وہ اس مہم کے بابت مزید لوگوں کی توجہ مبذول کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
گزشتہ دن خضدار میں بدنام زمانہ ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے چیلے ذکریا محمد حسنی جو کئی بلوچ فرزندوں کی اغوا اور شہادت میں براہ راست ملوث ہے اس کی سربراہی میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ جہاں آزاد بلوچستان مہم کے احتجاجی مہم کے خلاف نعروں کے ساتھ ساتھ جیش محمد اور لشکر طیبہ کے حمایت میں بھی نعرے لگائے گئے تھے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے پاکستان نہ صرف دنیا کے خلاف مذہبی شدت پسندوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ بلوچ تحریک کے خلاف بھی بلوچستان میں مذہبی انتہاء پسندی کو فروغ دینے کا مرتکب ہورہا ہے جو اس سے پہلے بھی ان گھناؤنی ہتھکنڈوں کو بنگلہ دیش کے خلاف استعمال کر چکا ہے۔
سوئیٹزرلینڈ کے شہر جینوا جہاں ہر سال انسانی حقوق اور انسانیت کے شرف پر گلہ پھاڑنے والے تمام دنیا سے آئے ہوئے سربراہان ممالک اور مبصرین کئی روز تک میٹنگوں میں مشغول رہتے ہیں انہیں چند قدم دور لگے وہ احتجاجی پوسٹر دیکھائی نہیں دیتے جن پر پاکستان کے ظلم جبر اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف احتجاج درج ہیں۔