بڑی مہربانی باجواہ صاحب آپ کی – برزکوہی بلوچ

600

مقبوضہ بلوچستان پر قابض پاکستانی ریاست کے  آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سچائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گذشتہ دنوں آئ ایس پی آر ڈاریکٹریٹ میں فیکلٹی ممبر اور طلباء سے ملاقات کے دوران دوٹوک الفاظ میں کہتے ہیں کہ بلوچستان کے بغیر قابض ریاست پاکستان مکمل نہیں۔ بلکل جناب آپ کی باتوں نے سچائی کو چیر کر ہر محکوم بلوچ کے دل میں کافی اثر کرلیا۔ ویسے بھی غلامی کے احساس و آگاہی کو کبھی کبھار آقا بھی تقویت بخش دیتا ہے۔ آپ نے بھی تو وہی بات دہرایا کہ نالائق، غیر تہذیب یافتہ اور جاہل بلوچ تو1948 سے لیکر آج تک یہی رونا رورہے ہیں کہ پاکستان بیچارہ بلوچستان کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ لو بھائی آپ نے بھی تسلیم تو کرلیا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بے حس اور بے ضمیر بلوچ اب کیا کہتے ہیں اور جواز پیش کرتے ہیں جو ہمیشہ یہ کہتے نہیں تھکتے  کہ پاکستان کے بغیر  آزاد اور خود مختار بلوچستان کیسے اور کس طرح چلے گا؟کبھی یہ نہیں سوچتے اور سمجھتے بھائی بلوچستان کے بغیر پنجابی اور پاکستان کا ذندہ رہنا ناممکن ہے ہمارا نہیں۔

قبضے کے دن سے لیکر آج تک پورے پاکستان اور پنجابی قوم کا خرچہ پانی سب بلوچستان کو  ہی برداشت کرنا پڑرہا ہے پاکستان کو ذندہ رہنے اور وقتا فوقتا آکسیجن فراہم کرنے میں بلوچستان کا اہم اور واضح کردار ہے۔ اسی لیے پاکستان کو بلوچ نہیں بلوچستان کی ضرورت ہے۔ اگر بلوچستان ہوگا تو پاکستان ہوگا اگر بلوچ ہوگا تو پاکستان نہیں ہوگا۔ وہ بلوچ نہیں جو صرف نام اور پہچان کی حد تک بلوچیت کا دعوی کرے بلکہ بلوچ وہ ہے جو بلوچ بن کر اپنے آپ کو بلوچ قوم جان کر اپنی حیثیت اور اپنی گل زمین کی افادیت کے شعور اور احساس سے لیس ہوگا۔

پہلے کی نسبت اب بلوچ قوم میں ناپختہ اور کمزور شکل ہی صحیح لیکن غلامی کا احساس شعور اور آگاہی کا ایک چمکتا ہوا چہرہ ظاہر ہورہا ہے لیکن ایک پرکٹھن اور تسلسل کے ساتھ جاری جہدوجہد کیلے ایک پختہ اور مضبوط شعور احساس اور آگاہی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

صرف ہم غلام تو غلام اور میں غلام کے بیانیئے کا بار بار رٹنے سے وہ احساس، وہ شعور ذہنوں میں کبھی نقش نہیں ہوگا جو مسلسل اور طویل جہدوجہد کیلے درکار ہوتی۔کیونکہ یہ احساس ہمیں بحثیت بلوچ قوم  باجوہ سے لیکر دشمن کی ہر مہرہ ماضی سے لیکر حال تک اور مستقبل میں بھی دیتے آرہے ہیں اور دیتے رہینگے۔ کبھی تشدد و قتل و غارت گری سے کبھی جھوٹا پیار و دلاسہ  اور دھمکی سے کبھی غربت اور مفلوک الحال ذندگی  سے۔ دشمن کے بار بار احساس دلانے کے باوجود پھر بھی بلوچ عوام میں غلامی کا حقیقی  احساس اور شعور کا وہ پختہ مقام کیوں دیکھائی نہیں دیتا ہے؟ وہ مقام جو بلوچ عوام میں شعور و احساس اور غلامی کے خلاف ایک طوفان برپاء کردے۔

آج تک بلوچ قیادت ماضی پرستانہ سیاست اور سیاسی طریقہ کار سے چمٹا ہوا نظر آرہا ہے بس جی 1948 کو پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کرلیا، ہم غلام ہیں ہم سونا چاندی تانبا کاپر گیس اور دیگر قدرتی وسائل سے مالامال خطے کے مالک ہیں اور پنجابی ہمارے وسائل کو لوٹ رہا ہے۔ اور ہم پر بہت ظلم ہورہا ہے۔ کیا اس کے علاوہ اور ہر موجودہ حالت اور دور کے تقاضوں کے مطابق بلوچ عوام میں غلامی کے احساس، شعور و آگاہی کو اجاگر کرنے کیلئے کسی کے پاس کو ئی متاثر کن پالیسی پروگرام اور حکمت عملی ہے؟جواب نفی میں ہوگا۔ پھر کیا اس کمزور و مفلوج ذدہ شکل میں قوم کے احساسات کو اجاگر کرنا ایک پختہ شعور کی شکل میں قومی آزادی کی طرف راغب و متحرک کرنا ممکن ہوگا؟

آج کل تو دشمن اور غلامی کے خلاف وہی پرانا مفلوج ذدہ اور کمزور طریقہ کار تک بھی غائب ہے۔ بس صرف آپسی مخالفت و حمایت  اور مقابلہ بازی کے چکر میں دشمن کو تو سائیڈ میں رکھا گیا ہے۔ بلوچ عوام کو غلامی کے خلاف احساس شعور اور اگاہی فراہم کرنے سے پہلے بلوچوں کیلئے   بنیادی اور لاذمی شرط کسی لیڈر اور پارٹی کی وفاداری اور تابعداری  بن چکی ہے۔ ہم صحیح اور دوسرے غلط کی پالیسی چلتا ارہا ہے۔ پھر کہاں سے دشمن اور غلامی کے خلاف نفرت قومی آذادی کیلئے جوش و جذبہ اور چاہت اذہان میں پیدا ہوکر آگے شعوری شکل اختیار کریگی؟

قابض پاکستان کی ہر دن اور ہر نت نئے بلوچستان اور بلوچ قوم کے حوالے سے پالییسیوں اور منصوبوں پر گہری نظر رکھنا اور   توجہ دینا پھر باریک بینی سے غور کرنا اور موثر انداز میں بلوچ قوم میں شعور و اگاہی پیدا کرنا بلکہ مضبوط اور متاثر کن پروگرام اور پالیسی کے ذریعے آگے بڑھنا ہی واحد راستہ ہے۔ پھر جاکر یہ شعور و بیداری اور احساس بلوچ قومی تحریک برائے قومی آزادی کیلئے دیرپا ثابت ہوگا۔

1 COMMENT

  1. اگر بلوچ لیڈروں بلوچ کی غلامی کی احساس ہے اور واکی اپنے غلامی کی احساس ہے تو پارٹی بازی چھوڈ دیں اور غلامی کی زنجیروں کو توڈ دیں

Comments are closed.