ہزاروں فرعون صفت لوگوں کی پناہ گاہ پاکستان جو ایک جہنم سے کم نہیں،عجیب ہے ایک منبر پر بیٹھا مُلا اس عملی جہنم میں رہنے والے لوگوں کو، اُس جہنم کو بیان کر کے دھمکیاں دے جو نہ تو اُسنے کبھی دیکھا ہے نہ تو اسکے آباؤ اجداد نے،مطلب کوئی ایسا انسان پاکستان میں نہیں بستا جو اپنے سے کمزور کو خوف میں مبتلا کرنے میں ناکام رہا ہو۔مُلا اور مولوی سالوں سے جنت و دوزخ کے ختم نہ ہونے والے قصے سُنا کر کئیوں کو جنت کا گاجر دکھا کر موت کی گھاٹ اتار چکا ہے۔ کچھ لوگ بُھٹو کو زندہ دکھا کر یسّو مسیح کا درجہ دے چکے ہیں اور باقی عوام کاغذی شیر نواز شریف کے ابُھرنے والے معجزات کے پکے مُرید بن چکے ہیں، جو اکثر لاہور اور گِرد و نواح میں دیکھنے کو ملتے ہیں،جیسے میٹرو،لیپ ٹاپ، رنگ برنگی ٹیکسیاں اور تازہ شہہ سرخیوں میں گدھے کا گوشت سرِ فہرست ہے۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے پچھلے کچھ ادوار سے اس گندے تالاب میں کچھ بلوچ بھی تیرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، جو اپنی کم عقلی اور ایک روایتی انا پرستی کےزد میں آکر خود کو رضیہ بنا کر پاکستان نامی غنڈے کے حوالے کرچکی ہے۔ جسکو نیشنل پارٹی اور دیگر پارلیمانی پارٹیز کے نام سے پُکارا اور پہچانا جاتا ہے، ان ضمیر فروشوں نے پاکستان کی تخلیق کردہ راولپنڈی کی وہ عینک لگا رکھی ہے،جن سے انھیں اپنے ہی بلوچ بھائی ناراض دہشت گرد نظر آتے ہیں حالانکہ اُن میں بیشتر انھی کے جذباتی نعروں کی پیداوار تھے، چونکہ اِن لیڈروں میں گِرگِٹ کی طرح رنگ بدلنے کی صفت موجود تھی تو یہ رنگ بدل کر ان درندوں کی گود میں جا پہنچیں جہاں انکو دودھ کی جگہ اپنے ہی بلوچ بھائیوں کا خون فیڈ کروایا گیا اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس خون کے اثر سے ان کالے بھیڑیوں کے بھی چہرے سُرخ ہونے لگے۔
پھر ان سفید بال والوں نے کرپشن کے میدان میں بھی اچھا خاصا نام کمایا اور یاد رہے یہ وہ لوگ تھے جو اکثر اپنے پارٹی کارکنوں کی محفلوں میں اپنے سفر کرنے کے کرایوں کا زکر کیا کرتے تھے کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ کہیں آ یا جا سکیں، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج یہ جہازوں پر گُھومنے والے لیڈر کیا کسی بلوچ بھائی کی میت پر فاتحہ پڑھنے بھی جاتے ہیں ؟
ان دنوں ایک لاچار بلوچ شہزادہ جو اپنے نام کی ابتدا سردار سے کرتا ہوا جان پر اختتام کرتا ہے،کچھ دنوں سے مختلف مقامات پر آنسو بہاتا ہوا دیکھا گیا، تو مجھ سے ایک دوست نے کہا یار یہ بندہ مُخلص ہے پتہ نہیں کیوں سب اسکو بُرا بھلا کہتے ہیں؟ تو میں نے مسکراتے ہوۓ میر غوث بخش بزنجو کہ اُس نالائق اولاد کا حوالہ دیا جسکی پاکستانی ریاست کی دلالی کرتے کرتے شکل بھی اب پنڈی کے گُجروں سی ملنے لگ گئی ہے۔
پیارے دوست کچھ عرصہ قبل یہ موصوف کراچی پریس کلب کے آگے ذاکر مجید کی ہمشیرہ فرزانہ مجید کے سامنے آنسو بہا رہا تھا اور اپنے مگرمچھ کے آنسوؤں کے عوض اپنے سیاسی ساتھیوں اور انکے گھر والوں کے آنسو بہانے میں مصروفِ عمل ہیں۔ مطلب کہنے کا یہ ہے اِن سیاسی جوکروں کو آنسو بہانا تو آتا ہے مگر سچائی کے ساتھ چلنا گوارا نہیں، کل کو یہ تمہارا جان نما سردار بھی اقتدار کی تسبیح ہاتھ میں تھامے جگہ جگہ اپنی بے بسی دکھاتا ہوا اپنی شلوار کی جیبیں بھی بلوچستان کے خزانے سے بھر رہا ہوگا تو خُدارا انکو اتنی سنجیدگی سے مت دیکھا کرو کہ کہیں تمہیں بھی انکی طرح آزادی ایک جھوٹ اور پاکستان ایک حقیقت لگنے لگے حالانکہ اسکے وجود سے لیکر اب تک اسکا نہ کوئی عمل سچا دکھائی دیا ہے نہ اُسکے ارادے جتنا جلدی ہو سکے خود کو اور اپنی قوم کو اس پاکستان سےآزاد کراؤ اور اسکے لیئے ان بلوچ نوجوانوں کا ساتھ دو جو اپنا آج تمھارے آنے والے کل کے لئے قُربان کر رہے ہیں۔ انکے بازؤں کو مضبوط بنانے میں اپنا وقت اور طاقت لگاؤ تاکہ کل کو تمہاری آنے والی نسلیں بھی تم پر فخر کریں کہ ہم سے پہلے ہمارے آباؤ اجداد نے کس بہادری و اتحاد سے اِس ناپاک غلامی کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے ایک آزاد ریاست بلوچستان کو ہمارے قدموں میں لاکر نچھاور کردیا تاکہ وہ بھی اُتنی زمہ داری سے اپنی ریاست کی قدر کر سکیں۔