پاکستانی وزیر خارجہ سرتاج عزیز کے منہ سے نا کہتے ہوئے بھی یہ بات نکل گئی کہ کوئٹہ جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔اگر سرتاج عزیز کے بیان کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور اسے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح طور پر عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے عالمی دہشتگردی کا مرکز و دہشتگردوں کا محفوظ پناہ گاہ رہا ہے اور ہمیشہ سے ہی پاکستان اس پالیسی پر گامزن رہا ہے کہ عالمی دہشت گردوں کی اپنے تزویراتی مقاصد کیلئے کفالت کی جائے اس لیے پاکستانی وزیر خارجہ کے نگاہ میں ایسے “چھوٹے موٹے واقعات “کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان داعش کی مدد کیوں کررہا ہے؟ اس سے پاکستان کو کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے یا ہو رہا ہے؟ اور داعش کے لیے پاکستان میں متحرک رہنا یا اپنے اڈے قائم کرناکیوں اہم ہے؟
میری ناقص رائے کے مطابق پاکستان میں اپنے اڈے قائم کرنا داعش کے لیے اس لیے اہم ہے کہ عراق اور سوریا میں داعش بُری طرحم سے شکست کھا چکا ہے اور اس کا پرانا ساکھ و دبدبہ بے حد متاثر ہوا ہے اس لیے داعش اب دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے لیے نئے محفوظ مقامات اور وہاں نئی پناہ گاہیں بنانے کی تلاش میں سر گرداں ہے اور داعش اپنی نئی پناگاہیں بناکر اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ جس کا تازہ مثال افغانستان میں تورہ بورہ کے مقام پر تاریخی زیر زمین غاروں پر قبضہ اور امریکہ کا داعش کے خلاف دنیا کی سب سے طاقتور بم کا گرانا ہے اور حال ہی میں طالبان اور داعش کا پاکستان کی مدد سے افغانستان میں مفاہمت ( واضع رہے کہ افغانستان میں طالبان اور داعش ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے)افغان ضلع سرپل پر قبضہ ہے۔
دوئم پاکستان داعش کے لیے اس لیے ایک بہترین ملک ہے کہ پاکستان میں داعش کے لیے تمام سہولیات دستیاب ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو داخلی قومی تحریکوں کو کائونٹر کرنے کے لیے بطور پراکسی داعش کی ضرورت ہے اور داعش بھی پاکستان کی ہر شے کو استعمال کرکے اپنے اہداف تک بہ آسانی پہنچ سکتا ہے ، داعش کے دہشتگرد پاکستانی پاسپورٹ سے کسی بھی ملک میں بہ آسانی سفر کر سکتےہیں ،پاکستانی الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کو اپنے پراپیگنڈا اور بھرتی مہم کے لیے آزادانہ استعمال کرسکتے ہیں ،یہاں آزادانہ طور پر اپنے جنگی و تربیتی کیمپس قائم کر سکتی ہے اور داعش کے جنگجووں کے لیے سب سے اہم بات جنسی ضروریات ہیں وہ اپنے جنگجوہوں کے لیے پنجاب کے اندر جنسی خواہشات پورا کرنے کے لیے عورتیں با آسانی جہاد و جنت کے نام پر برین واش کرکے بھرتی کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ پھچلے سال یہ انکشاف ہوا تھا کہ پنجاب سے بڑی تعداد میں خواتین نے داعش میں شامل ہوکر داعش کے جنگجوں سے شادی کی ہے اور اُن عورتوں کا کہنا تھا کہ ہم “مجاھدین ” کی محض جنسی خواہشات پوری ۔ ۔ کرکے “جہاد “میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ جیسے جہاد النکاح کا نام دیا گیا تھا۔
یہ تو تھے داعش کے فائدےمگر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہداعش کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے سے پاکستان کو کیا فائدہ حاصل ہوگا ؟ جب پاکستان نے اپنی زمین سرکاری مشینری اپنے لوگ اپنےمحفوظ پناگاہیں داعش کے لیے وقف کیے ہیں ، تو اس کے عوض پاکستان داعش سے لازماً اچھی خاصی رقوم وصول کرتی ہوگی، اسے اپنے دوسرے مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہوگا اور داعش کے زریعہ بلوچ تحریک کو کاونٹر کرنے کی کوشش تو یقیناً کررہا ہے۔ بلوچستان میں داعش کے لیے عسکری کیمپ اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں کو داعش میں بھرتی کرنا بلوچستان میں بلوچ تحریک کو کاونٹر کرنا اور پاکستان کی سب سے اہم مقصد دنیا میں بلوچ مسئلے کو مذہبی و فرقہ وارانہ رنگ دیکر اصل مسئلے کودباکر غلط فہمیاں پیدا کرنا اور دنیا کو یہ باور کرنے کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں کوئی قومی آزادی کی تحریک نہیں چل رہی ہے بلکہ یہ تو محض ایک فرقہ وارانہ مسئلہ ہے کہ اس کے پیچھے بہت سے ملک سی پیک کو ناکام کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا سے داعش کے خلاف لڑنے کے لیے بھی ڈالر اور فوجی امداد حاصل کرنے کی کوشش اور سب سے بڑی کوشش یہی ہے کہ امریکہ اور اُن ممالک کے دباؤ کو اپنے اوپرکم کرنا اور اُن کو یہ باور کرانا کہ پاکستان ۔ کسی اسلامی شددت پسند تنظیم کی مدد نہیں کررہا ہے بلکہ وہ خود دہشتگردی کا شکار ہے۔
ان تمام عوامل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہایسے بڑے منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے پہلے اپنےلوگوں اور فوجیوں کے اوپر اور اُن مقامات پر حملہ کرانا کہ جو پاکستان کے دفاعی اساس ہوں جس سے دنیا باور کرسکے کہ پاکستان خود دہتشگردی کا شکار ہے۔ جس سے دنیا پاکستان کی ہر طرح کی مدد کرے اور اس کے بعد پاکستان کا بلوچوں کے خلاف اور ہر اس قوم کے خلاف داعش کو استعمال کرنے کا منصوبہ ہے جو پاکستان میں آزادی یا حقوق کی جدوجھد کررہے ہیں یا پاکستان کے غلیظ حرکتوں پر تنقید کررہے ہیں ۔ داعش کو ھندوستان کے خلاف بھی بہ آسانی استعمال کیا جاسکتاہے افغانستان کے خلاف تو داعش اور طالبان استعمال ہو ہی رہے ہیں۔ مگر یہ بات قابل غور ہیکہ اکثر ایسے غلیظ پالیسیوں کے نتائج امیدوں کے برخلاف ہوتے ہیں جس طرح ترکی نے کرد تحریک کے خلاف داعش کو استعمال کیا ۔داعش کو آزادانہ نقل و عمل کی اجازت دی اور داعش کے زخمیوں کو اپنے ھسپتا لوں میں علاج کی سہولتیں فراہم کیں اور داعش سے بلیک مارکیٹ میں کئی ہزار بیرل تیل سستے دام خریدے۔ اس سے ترکی عالمی دنیا میں تنقید کا نشانہ بھی بنا اور ہر فورم پر ترکی کو شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مختصر عرصے کے بعد یہی داعش ترکی ہی پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کا داعش پالیسی بھی پاکستان کے لیے ایک دن درد سر بن جائیگی ۔
پاکستان یہ بھول چکاہےکہ امریکہ اور ترقی یافتہ ممالک اتنے بے وقوف نہیں ہیں جو اس طرح کے غلیظ پالیسیوں کو پہچاننے سے قاصر ہونگے اور اپنی امداد اور رقوم جاری کرکے پاکستان پر بھروسہ کرینگے اور ایسے ہتھکنڈوں سے پاکستان بلوچ تحریک کو ختم کرسکے گا۔ ۔ آج پاکستان کی وجود نہ صرف بلوچ ، پشتون اور سندھیوں کے وجود کے لیے خطرہ ہے بلکہ پاکستان پورے دنیا کے لیے ایک خطرناک دہشتگرد ریاست بن چکا ہے ۔ بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے 2016 میں اپنے ایک ٹویٹر پیغام کے زریعے واضح کیا تھا کہ کس طرح پاکستان اپنے جوہری ہتھیار بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ذخیرہ کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ خضدار کے علاقے ساسول میں پاکستانی افواج علاقہ مکینوں کو وہاں سے نکال رہے ہیں، تاکہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو ان علاقوں میں محفوظ رکھ سکیں۔ گذشتہ دنوں ایک امریکی تھنک ٹینک نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اپناایک محفوظ اور مضبوط زیرزمین اسلحہ خانہ بلوچستان میں تعمیر کرچکا ہے جس کا مقصد بیلسٹک میزائلز اور کیمیائی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنا ہے غور طلب بات یہ ہے کہ جہاں القاعدہ لشکر جھنگوی طالبان شفیق مینگل جیسے اسلامی شددت پسندوں کے محفوظ پناگاہیں ہیں جو پاکستانی فوج اُس کی آئی ایس آئی اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ثناءاللہ زہری کی سربراہی میں قائم ہیں اور حرکت میں ہیں وہاں اسی ہی علاقے خضدار میں پاکستان نے اپنے اسلحہ خانہ بنا رکھا ہے اور جوہری وکیمیائی ہتھیاروں کو ذخیرہ کیا ہوا ہے۔ اگر یہ جوہری اور کیمیائی اہتھیار داعش ، القائدہ کے ہاتھ آئیں تو کس طرح سے یہ دنیا میں تباہی مچاسکت