امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فورٹ میئر ورجینیا میں خطاب کرتے ہوئے اپنی نئی افغان پالیسی پیش کردی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ کی یہ نئی پالیسی اس خطے میں پاکستان کے دوہرے کردار کا انجام ثابت ہوگا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز بغیر لگی لپٹے اپنے خطاب میں کہا کہ ” پاکستان تواتر کے ساتھ شرپسندوں اور دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرتا آرہا ہے”۔
پاکستان جسے 2004 میں اہم نان نیٹو اتحادی کا درجہ عطا کیا گیا تھا، مسلسل طالبان اور دوسرے شدت پسند گروہوں کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں قائم کرنے کی اجازت دیتا رہا ہے۔ تاہم اسی وقت سے ہی افغان حکومت اور امریکی حکام پاکستان پر اس خطے میں دوہری کھیل کھیلنے کا الزام لگاتے آئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ خطاب میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ پاکستان میں قائم دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کرے گا جس کی وجہ سے یہ دہشت گرد امریکی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ ٹرمپ نے پاکستان کے جوہری اثاثوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ” ہمیں یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ جوھری ہتھیار اور جوھری مواد دہشتگردوں کے ہاتھ نہیں لگنے پائیں تاکہ یہ ہتھیار امریکہ یا دنیا میں کسی کے بھی خلاف استعمال نا ہو سکیں”۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ امریکہ پاکستان میں موجود دہشتگردوں کے محفوظ پناہ گاہوں پر اب مزید خاموش نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے افغان اور امریکی حکام پاکستان پر الزام لگا چکے ہیں کہ پاکستان نے افغان طالبان کے بدنام زمانہ کوئٹہ شوریٰ کو بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں پناہ دیا ہوا ہے۔ افغان طالبان کی قیادت کرنے والا کوئٹہ شوریٰ ان طالبان رہنماوں پر مشتمل ہے جو 90 کی دہائی میں افغانستان پر حکومت کرنے والی طالبان حکومت میں شامل تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا ” ہم پاکستان کو ایک طرف سے اربوں ڈالر دے رہے ہیں لیکن دوسری طرف پاکستان انہی دہشت گردوں کو اپنے گھر میں پناہ دے رہا ہے جن کے خلاف ہم لڑ رہے ہیں”۔
پاکستان ترقیاتی اور عسکری فنڈز کے مد میں سالانہ امریکہ سے ایک بہت بڑی رقم امداد کی صورت میں حاصل کررہا ہے۔ 2011 میں پاکستان امریکہ سے ساڑھے تین بلین ڈالر کی خطیر رقم حاصل کرنے کے بعد امریکی خارجی امداد کے فہرست میں تیسرے نمبر پر آچکا تھا۔ تاہم بعد ازاں یہ عسکری امداد کم ہوتی گئی کیونکہ امریکی حکام کے مطابق اتنی رقم حاصل کرنے کے باوجود پاکستان کافی اقدامات نہیں اٹھا رہا۔ رواں سال جولائی میں امریکہ نے پاکستان کو عسکری امداد کے مد میں 350 ملین ڈالر دینے سے انکار کردیا تھا۔
صرف باتیں نہیں:
تجزیہ نگاروں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے ارادے محض باتوں کی حد تک محدود نہیں ہونگی بلکہ مستقبل قریب میں پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کی توقع کی جاسکتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے نے اس حوالے سے سابق امریکی کرنل لارینس سیلین سے بات کی جو ایک دفاعی تجزیہ نگار اور افغانستان میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے سابق امریکی فوجی ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ ٹرمپ کے خطاب کے بعد اب کونسے ممکنہ اقدامات مستقبل قریب میں اٹھائی جاسکتی ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ وائٹ ہاوس میں جنرل نکولسن کے ساتھ ہونے والے اندرونی مباحث میں افغانستان پالیسی کے بابت پاکستان سب سے اہم موضوعِ بحث رہا ہے۔
کرنل سیلین نے دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے سے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” وائٹ ہاوس میں موجود ذرائع کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کی نئی افغان پالسیی کے ترتیب کیلئے جنرل نکولسن کے ساتھ صلاح و مشوروں میں سب سے زیادہ موضوعِ بحث یہ رہا کہ پاکستان پر کس طرح مسلسل دباو ڈالا جائے۔ افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل نکولسن نے پاکستان میں موجود دہشتگردوں کے محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کی درخواست کی۔ یہ اندرونی مباحث اس بات پر جاری رہیں گے کہ کب اور کیا اقدامات پاکستان کے خلاف اٹھانی چاہیئے”
جب سیلین سے پوچھا گیا کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے خلاف کیا ممکنہ اقدامات اٹھاسکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ” یہ اقدامات ممکنہ طور پر عسکری، سفارتی اور معاشی ہوسکتے ہیں، دہشتگرد فاٹا اور بلوچستان میں کھلم کھلا گھوم رہے ہیں، انہیں براہ راست نشانہ بنایا جاسکتا ہے”۔
دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے کے اس سوال کہ کیا اوبامہ کی طرح ٹرمپ کی عزائم محض باتوں تک ہی مشتمل ہونگے کے جواب میں کرنل سیلین نے کہا کہ ” مجھے نہیں لگتا کہ یہ محض باتوں کی حد تک ہونگی، میرا یقین ہے کہ ہمیں اوبامہ انتظامیہ کے مقابلے میں اب زیادہ عملی کام اس بابت نظر آئے گا، ہمیں اب تک یہ دیکھنا ہے کہ کیا پاکستان کے خلاف جو اقدامات اٹھائی جائینگی وہ اس حد تک ہونگی کہ اس جنگ کا رخ بدل سکے یا نہیں”۔
اسی طرح کی باتیں بلوچستان کے ایک بڑی سیاسی جماعت کے اعلی لیڈر حمل حیدر بلوچ نے دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے سے بات کرتے ہوئے کہی، حمل حیدر کا تعلق بلوچ نیشنل موومنٹ سے ہے، وہ پارٹی کے عالمی نمائیندے اور خارجہ امور کے ترجمان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ” ٹرمپ انتظامیہ حقیقی معنوں میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے منافقانہ کردار کے بابت سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ جب تک پاکستان سے صحیح معنوں میں نمٹا نہیں جاتا تب تک افغانستان اور اس خطے میں امن بحال نہیں کی جاسکتی۔ نائن الیون کے بعد یہ پہلی دفعہ ہے کہ کسی امریکی صدر نے پاکستان پر برملا اسلامی دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگایا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ٹرمپ نے پاکستان کے بابت جو کچھ کہا وہ محض باتوں کی حد تک رہیں گی”۔
ایک تیر سے دو شکار:
حمل حیدر بلوچ کی جماعت اس سے پہلے بھی کئی دفعہ پاکستان پر الزام لگا چکا ہے کہ پاکستان ان مذہبی شدت پسند دہشتگردوں کو نہ صرف افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف استعمال کررہا ہے بلکہ انہیں بلوچستان میں بلوچ آزادی کی جاری سیکیولر تحریک کے خلاف بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے سے بات کرتے ہوئے حمل حیدر بلوچ نے مزید کہا ” پاکستان نے بلوچستان کے اندر ان مختلف مذہبی شدت پسند گروہوں کی ایک نئی انفراسٹرکچر تعمیر کرلیا ہے۔ جہاں یہ شدت پسند گروہ جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس آزادانہ نقل و عمل کرتے اور پاکستانی فورسز کے شانہ بشانہ کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں موجود داعش کی شاخ، بلوچستان کے علاقوں مستونگ ، خضدار اور آواران میں بہت متحرک ہے۔ جو اس امر کی ایک کھلی مثال ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ نے بلوچ آزادی پسند مسلح جماعتوں کی رائے جاننے کیلئے بلوچستان میں آزادی کی جنگ لڑنے والے بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان اور سینئر ترین کمانڈر میرک بلوچ سے گفتگو کی۔ میرک بلوچ نے ہمارے نمائیندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ” افغانستان امن بحالی کے عمل میں پاکستان کی منفی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ پاکستان شروع دن سے اپنے فوجی عزائم کو مذہب کا لبادہ پہناتے آرہا ہے۔ ہمیں بنگلہ دیش سے لیکر افغانستان تک یہی ایک ہی پالیسی کارفرما نظر آتی ہے جس سے افغانستان سمیت سب سے زیادہ متاثر بلوچستان اور کشمیر رہے ہیں”۔
میرک بلوچ، جن کے تعلقہ تنظیم بی ایل اے نے بلوچستان میں مسلح جدوجہد آزادی شروع کی تھی کا دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے کو کہنا تھا کہ ” پاکستان مذہبی شدت پسندوں کو افغانستان میں اس لیئے مدد کررہا ہے کیونکہ وہ در حقیقت افغانستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے”َ۔
ریٹائرڈ امریکی کرنل لارئینس سیلین جو آئی ٹی کمانڈ اینڈ کنٹروں کے موضوع کے ایک ماہر بھی ہیں کا دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے سے کہنا تھا کہ “پاکستان ان دہشتگردوں کو محض معصوم افغانوں کے قتل میں استعمال نہیں کررہا بلکہ وہ انہیں جائز حق خود ارادیت کے تحریکوں خاص طور پر بلوچ عوام کے خلاف بھی بھرپور استعمال کررہا ہے”۔
اسی بات کی تصدیق بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان میرک بلوچ نے بھی ان الفاظوں میں کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان اپنے جہادی پالیسیوں کو بلوچستان میں توسیع دیکر بلوچ قومی تحریک کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے”۔
کرنل سیلین نے ہمارے نمائیندے سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ” امریکہ، نیٹو اور اقوام متحدہ کو اب بلوچستان میں مداخلت کرنے کے بابت سوچنا شروع کردینا چاہیئے کیونکہ پاکستان نے بلوچستان میں ماورائے قانون قتل عام اور نسل کشی مچارکھا ہے۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ امریکہ کو اب سیکیولر بلوچ قوتوں کی مذہبی شدت پسندوں کے خلاف مدد کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے تاکہ اس خطے میں مذہبی شدت پسندی کا سدباب ہونا چاہیئے۔ یہ بات امریکہ کے علاوہ روس، چین اور بھارت کے بھی حق میں ہے کہ وہ بھی بلوچوں کی حمایت کریں کیونکہ انہیں بھی مذہبی شدت پسندوں سے اتنا ہی خطرہ ہے”۔
دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے نے اسی بابت میرک بلوچ سے دریافت کی، کیا وہ ان مذہبی شدت پسندوں کے خلاف امریکی اور مغربی ممالک کی طرف سے مدد قبول کریں گے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ” اگر امریکہ اس خطے سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے بابت سنجیدہ ہے تو پھر افغانستان کے سیکیولر قوتوں کے ساتھ ساتھ انہیں بلوچ آزادی پسند قوتوں کو بھی ساتھ لیکر چلنے پر سوچنا ہوگا اور قوت فراہم کرنا ہوگا تاکہ فطری اتحاد کے ذریعے پاکستان کے فسادی فوجی عزائم کو ناکام بنایا جاسکے اور اس خطے کے تمام مظلوم عوام کو پاکستان کے فوجی شر سے نجات دیا جاسکے”۔
بی این ایم کے رہنما حمل حیدر بلوچ کے خیالات بھی اسکی تائید کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ” بلوچ آزادی پسند قوتیں امریکی اور مغربی ممالک کے وسیع تر مفاد میں ہیں۔ امریکہ اور دوسرے مغربی قوتوں کو بلوچوں کی مدد کرنی چاہیئے کے وہ پاکستان اور اسکے بنائے گئے مزہبی جنونیت پسند دہشتگردوں کا مقابلہ کرسکیں تاکہ اس خطے اور اس سے باہر امن قائم کیا جاسکے”۔