پاکستان بہت کوشش کرتا رہا ہے کہ وہ عالمی مالیاتی ادارے اور جنوبی کوریا سمیت دوسرے ممالک کو توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری پر آمادہ کر سکے خاص طور پر کشمیر اور گلگت بلتستان میں، اور کشمیر کے دونوں حصوں یعنی جموں اور کشمیر میں جن کا بھارت اپنے علاقے ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
جبکہ جنوبی کوریا نے پہلے دلچسپی ظاہر کی تھی جو کہ اب پاکستان کے ان علاقوں میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہے جس کا سبب بین الاقوامی اور جنوبی کوریا کی جانب سے سمجھنا ہے کہ خطے کی متنازع حیثیئت اورقانونی پیچیدگیوں کےباعث کشمیر اور گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں کیاجاسکتاہے۔
نہ صرف یہ دونوں علاقے متنازع ہیں بلکہ رسمی طور پریہ پاکستان کا حصہ بھی نہیں ہیں جس کی وجہ سے کئی لاجواب سوالات موجود ہیں جن میں گلگت بلتستان اور کشمیر میں رہنے والے افراد کی شہریت کا سوال بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ چین پاکستان اقتصادی کوریڈور کا اعلان اور اس پر بھارت کا اعتراض کہ پاکستان اورچین اقتصادی کوریڈور پر کیسے متفق ہوسکتے ہیں جو کہ بھارتی علاقوں سے ہوکر گزرتا ہے جن پر اس وقت پاکستان قابض ہے، اور ان متنازع علاقوں میں منصوبوں کے اقتصادی امکانات کو لیکر سرمایہ کاروں میں کئی شکوک وتحفظات پائے جاتے ہیں
جنوبی کوریا کے ڈیلم انڈسٹری کمپنی لمیٹڈ، جو کہ جہلم مظفرآباد میں چاکیٹی ہٹرو ہائیڈرو پراجیکٹ تیار کرنے کے لئے ایک کنسورشیم کی قیادت کر رہا تھا، اس منصوبے میں اس کی سرمایہ کاری پر غور کر رہا ہے، خاص طور پر ایشیائی ترقیاتی بینک، بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن اور کوریا اکزم بینک نے بھی تنازعات والے علاقوں میں منصوبوں کو فنانس دینے میں ان کی ناکامی کا اظہار کیا ہے. اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں دیگر کوریائی منصوبوں جیسے، کوہالا ہائیڈرو پاور منصوبہ کا بھی غیر مستحکم ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان میں ان منصوبوں سے دستبرداری کے جنوبی کوریا کہ فیصلے نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ناخوشگوار بنا دیا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان میں رہنے والے جنوبی کوریا کے باشندوں کو ہراساں کرنے کے معاملات نے بھی مزید بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔
رواں سال جون میں تین کوریائی خواتین جو کچھ چینی عیسائی مشنریوں کے سااتھ ملکر کوئٹہ کےعلاقے میں غالباۤ عیسائیت کی تبلیغ کر رہے تھے جنہیں پاکستانی سیکورٹی فورسز کی طرف سے حراست میں لیا گیا تھا، اس واقعے کے بعد دو چینی باشندے اغوا کے بعد قتل کر دیئے گئے تھے جس کی زمہ داری مزہبی شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کی تھی۔ پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ان عیسائی مشنریوں پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ مقامی حکام کی اجازت کے بغیر غیر قانونی طور پر اپنے مزہب کی تبلیغ کر ہے تھے اور اب تک کوریائی ایمبیسی کو بھی ان تک رسائی حاصل نہیں ہوئی ہے جس کے باعث کوریا میں انکی زندگیوں کو لیکر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
جنوبی کوریا میں جلاوطن بلوچ کارکنان بھی بلوچستان میں پاکستانی ریاست کی طرف سے کیئے جانے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں آواز اٹھاتے ہوئے آگاہی دیتے رہے ہیں، بلوچ قوم پرست تنظیموں،بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچ ریپبلیکن پارٹی کے ارکان سیول سمیت جنوبی کوریا کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کر چکے ہیں۔
مارچ 2016 میں بلوچستان کے حالات کو نمایاں کرنے کے لیئے خواتین اور بچوں سمیت بلوچ کارکنان نے “آزادی مارچ” کے عنوان سے بوسان سے لیکر سیول تک سات سو کلومیٹر کا طویل پیدل مارچ کیا تھا جس نے میڈیا کی بڑی توجہ حاصل کی اور جنوبی کوریا کے پریس میں بھی اس پر مختلف رپورٹس شائع کی گئیں۔