بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے بی ایم سی گرلز ہاسٹل میں طلباء کے ساتھ پولیس و آوٹ سائیڈر کی بدتہذیبی کے بعد انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کو آواز اٹھانے کے سزا میں دباؤ ڈالنے کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ اپنی کوتائی و نااہلیوں کو چپھانے کے لئے طلبہ پر ناجائز دباؤ ڈھال رہا ہے۔ انہوں نے کہا طلبہ پر جسمانی تشدد کرنے کی کوشش روایات کی سنگین خلاف ورزی ہونے کے ساتھ غیر قانونی ایکٹ ہے جس کے لئے نہ صرف انتظامیہ نے نرم گوشہ اختیار کرتے ہوئے کاروائی کرنے سے گریزاں ہے بلکہ اس پر طلبہ کو مزید زہنی دباؤ ڈھالنے کے لئے اسے کمرہ فارغ کرنے اور خصوصا ٹارگٹ کرکے رسٹکیٹ کرنے کی دھمکی دی جارہی ہے ۔ اس سے قبل ماضی میں بھی انتظامیہ کی غفلت پسند و ناپسند کے بنیاد پر الاٹ منٹ کی وجہ سے بیشتر طلبا ہاسٹل میں روم کی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس کے علاوہ ہاسٹل میں رمضان کے مہینے سے پانی کی شدید قلت ہے۔ اور کالج میں تعمیراتی کاموں میں خرد برد کرنے کی وجہ سے انتظامیہ نے طلبا کے حالیہ موثر انداز میں احتجاج ریکارڈ کرنے پر بوکھلاہٹ کا شکار ہوکراپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہوئے طلبہ کو سنگین قسم دھمکی دی جارہی ہے جو کہ سراسر انسانی حقوق کے خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے دیگر حلقے انسانی حقوق کے علمبردارو طلبہ حقوق کی پاسداراں کے خاموشی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی سنگین مسائل پر چشم پوشی اختیار کرکے خاموشی اختیار کرنا فیمیل اسٹوڈنٹس کے لئے تعلیمی راستے بند کرانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے آخر میں حکام بالا و ہائیکورٹ بلوچستان سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے اختیارات کے تجاوزات پر قانونی کاروائی کر کے طلبا و طالبات کے حقوق کا تحفظات کو یقینی بنائے جائے۔