بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے پاکستانی فوج پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ سرمچاروں نے پچیس اگست کو بلیدہ کے علاقے تاپلو میں فوجی چیک پوسٹ اور اس کے مورچے پر دو اطراف سے خود کار بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ جس میں دو اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔
جبکہ بلوچ ریپبلکن آرمی کے ترجمان سرباز بلوچ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ ریپبلکن آرمی کے سرمچاروں نےپچیس اگست کی رات بولان میں مرکزی شاہرہ پر گوکڑت کے مقام پر ایف سی کی ایک قافلے کو رات گئے گھات لگا کر راکٹوں اور خود کار ہتھیاروں سے نشانہ بنایا، اطلاعت کے مطابق اس حملے میں چار اہلکار موقع پر ہلاک ہوئے۔ اسی علاقے میں لیویز نے ہمارے ساتھیوں کے راستے میں ناکہ بندی کی کوشش کی جس کے جواب میں لیویز کے گوگڑت تھانے کو راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا جس کے نتجے میں دو اہلکار زخمی ہوئےاور تھانے کا بڑا حصہ راکٹ حملوں کی وجہ سے منہدم ہوگیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ لیویز فورس کے حوالے سے تنظیم کی پالیسی تھی کہ ان پر حملے نہیں کیئے جائینگے مگر پچھلے کچھ عرصے میں لیویز اپنی اوقات بھول گئی ہے۔ پاکستان فوج نے ہیلی کاپٹروں سے لیکر جیٹ طیاروں اور کمانڈو کا استعمال کر کے ہر طرح کی طاقت آزمائی کی مگر ناکام رہا اب لیویز بھی ادھار کے ہتھاروں سے اپنا شوق پورا کر لے اور بی آر اے کے حملوں کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ بولان کے علاقے گوگڑت اور گری دو کے درمیان 220کے وی کے بجلی کمبھے کو بھی ہمارے سرمچاروں نے دھماکہ خیز مواد سے تباہ کردیا۔ تمپ کے علاقے ملانٹ، کیچ کے علاقے بالگتر میں گڈگی واٹر سپلائی چوکی ، بالگتر کے ہی علاقے ساکی آسانک میں قائم پاکستان آرمی کی چوکی پر راکٹوں اور خودکار ہتھیاروں سے حملے کر کے فورسز کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا، تمپ کے علاقے آسیا باد میں آرمی چوکی میں ڈیوٹی پر معمور اہلکار کو سنائپر حملے ہلاک کیا۔
گوادر شہر میں آج ائیرپورٹ روڈ پر آرمی کےایک ایمبولنس کو اس کووقت دستی بم حملے کا نشانہ بنایا جب وہ پورٹ سے نکل کر شہر کی طرف جارہا تھا، فورسز اپنی ناکامی کو چھپانے اور چینی آقاوں کو تسلی دینے کیلئے اس کو سلینڈر کا نام دے رہے ہیں۔
سر باز بلوچ نے کہا کہ یہ تمام حملے ڈاڈائے قوم شہید نواب اکبر خان بگٹی کی برسی کے موقع پر ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے کئیے گئے ڈاڈائے قوم شہید نواب اکبر خان بگٹی نے اپنے خون سے اس تحریک آزادی کی بنیاد رکھی اور خود پہل کرتے ہوئے مسلح مزاحمت کی قیادت کی اور پیراں سالی میں اپنا گھر بار، خاندان، نوابی اور تمام میسر سہولیات کو چھوڑ کر پہاڑوں میں بلوچ آزادی اور حق حاکیمت کیلئے اپنی زندگی سمیت سب کچھ قربان کردیا۔
Bشہید نواب اکبر خان بگٹی اس خطے کے دولت منداور اثر رسوخ رکھنے والے شخصیات کے فہرست میں شامل تھے لیکن پھر بھی انھوں نے معزوری اور پیراں سالی میں مشکل، کھٹن اور ہر قدم پر موت کے راستے کا انتخاب کیا خود سے سوگنا زیادہ طاقت ور دشمن کا مقابلہ کیا اور سرینڈر کرنے سے موت کو گلے لگانے کو ترجیح دی اور بلوچ راوایات پر کاربند رہتے ہوئے شہید ہوگئے ان کی ان حالات میں ثابت قدمی سے جدوجہد اور شہادت ہمارے تمام نسلوں کیلئے پیغام تھا کہ کسی بھی طرح کے حالات ہوں مگر وطن و قوم سے سچی وابستگی ہو تو ہر کھٹن حالات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے بلوچ قوم کے نوجوان اور ہر مکتب فکر کے لوگ ڈاڈائے قوم کے اس قول کو مت بھولیں کہ موت تو گھر میں پڑے بستر پر بھی آسکتی ہے مگر مجھے خوشی ہوگی کہ میں پہاڑوں میں لڑتے ہوئے اپنی قوم کیلئے اپنا جان قربان کردوں۔