ادارہ: صورت خان مری کا شمار ان چنندہ بلوچ دانشوروں میں سے ہوتا ہے جو اپنا موقف دو ٹوک انداز میں رکھتے ہیں۔ بلوچ، بلوچی اور بلوچستان خاص طور پر بلوچ نیشنلزم پر آپ کی بہت گہری نظر ہے اور دہائیوں سے ان موضوعات پر لکھتے آرہے ہیں۔ بلوچ سیاسی طالبعلموں ، جماعتوں اور پالیسی سازوں میں آپ کی تحریروں اور رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اپنے بے باک اندازِ بیان اور تنقیدی نقطہ نظر کے باعث انہیں مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی تحریریں اور نقطہ نظر ثابت ہوگیا۔ نا سازی صحت اور دوسرے مسائل کے بنا پر آپ کی تحریریں اب کم نظر آتی ہیں۔ اس بنا پر بلوچ دانشور صورت خان مری کی رائے موجودہ حالات پر جاننے کیلئے دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندہ خاص نے آپ سے انٹرویو لی جو قارئین کے زیر خد مت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: بلوچ،بلوچیت کو کیسے بیان کریں گے ؟
واجہ صورت خان مری: پہلی بات یہ ہے ، بلوچ لفظ کے معنی ، پس منظر اور تاریخ پر سائنسی بنیادوں پر تحقیق نہیں ہوئی، اکثر و بیشتر لکھنے والوں نے قیاس آرائی سے کام لیا ، بیلوس سے لیکر بلواوچ ( براہوئی) بلوچ اشتقاق کی بنیاد قرار دیا گیا، چنانچہ بلوچ اور بلوچیت بمعنی بلوچ نیشنلزم کو سمجھنے کیلئے ہمیں بلوچوں کے اپنے مباحث اور تضادات کو سمجھنا ہوگا ۔
بلوچ لکھنے والے اور مباحث کا ایک طبقہ بڑے وثوق سے دعوی کرتا ہے کہ بلوچ من حیث القوم آریائی نسل سے تعلق رکھتا ہے، اگر اس مفروضے کو تسلیم کیا جائے تو ہمیں آریائی نسل ، اس کی خصوصیات ، تاریخ ، جدلیات اور تضادات کو سمجھنا ہوگا ۔
انتھراپالوجی کے ماہرین انسانی نسل اور سوسائٹی کو دو بنیادوں پر تقسیم کرتے ہیں ، اوّل، نسلی بنیادوں پر یعنی والدین ، گھرانہ، خاندان، ٹکر، قبیلہ اور قوم ، جو ایک مخصوس نسل کے درخت کی مانند ہے، جس کی پیوند کاری کیلئے بھی وہی نسل درکار ہوگی، چنانچہ تحقیق کیلئے انتھراپالوجی کے ماہرین کا یہ پسندیدہ موضوع ہے، چنانچہ نسلی بنیادوں پر قائم اقوام اور سوسائٹی کو ہو موجینئس سوسائٹی کہا جاتا ہے، نسلی بنیادوں پر تشکیل سوسائٹی یا ہوموجینئس سوسائٹی کے اپنے مخصوص خصوصیات گنے جاتے ہیں۔
ایک خاص فرد یا گھرانہ سے اجراء ہوکر قوم اور سوسائٹی کی تشکیل ہوتی ہے ۔
کسی دوسرے قوم سوسائٹی ، نسل کے افراد نہ اس مخصوص قوم، نسل ، سوسائٹی سے خراج ممکن ہے نہ کسی دیگر نسل، قوم یا سوسائٹی کے افراد کو قبول کیا جاتا ہے۔
جس کی بہترین مثال بین القوامی شہرت کے جرمن زبان کے دانشور کافکا کا دیا جاتا ہے۔ وہ جرمن تھا، جرمن مادری زبان تھی، جرمن زبان کی تحریروں سے بین القوامی شہرت پائی، اب چونکہ نسلی طور پر وہ جرمن نہ تھا ، جرمن سوسائٹی کی اپنائیت ان کو نصیب نہ ہوسکی، وہ زندگی بھر ، اپنی تمام تحریروں میں اپنی ذات کی تلاش میں سرگرداں رہا ۔
ہوموجینئس سوسائٹی یا نسلی قوم کی دیگر خصوصات میں نسلی تفخر ، تعصب، جبر، غاصبیت، شاہیت،Monarchyوغیرہ گنے جاتے ہیں۔ اس سوسائٹی کی نیشنلزم کو لسانی یا Ethnic Nationalism کہتے ہیں۔ اب آریائی نسل کے اقوام کی تاریخ پر نظر ڈالیں ، تو ان اقوام کی نسلی تفخر ، تعصب، جبر ، غاصبیت نے ہٹلر ، مسولینی، نپولین کی فاشزم کو جنم دیا، یا آج کی اکیسویں صدی میں بھی بادشاہیت سے چمٹے ہیں ، کیا بلوچ قومی خصلتوں میں ہوموجینئس سوسائٹی کا شائبہ تک دیکھنے میں آتا ہے؟
بلوچ مباحث کا دوسرا طبقہ جو غالباََ انگریز محقق راولسن سے لیکر محمد سردار خان گشکوری تک کے دعویٰ وہ یہ کہ بلوچ عربی النسل ہیں، اس دعویٰ پر بحث کو آگے بڑھاتے ہیں، نسلی اقوام چاہے وہ آریائی ہو، منگول ہو یا عربی النسل سوسائٹی کی عمومی قومی خصوصیات یکساں ہونگے۔
بلوچوں کے عربی النسل ہونے کے دعویٰ کرنے والے بلوچی اشعار ’’ ہم وہ بلوچ ہیں جو حلب سے چلے ہیں ‘‘ یا یہ کہ وہ ’’ امیر حمزہ‘‘ کے اولاد ہیں حالانکہ اصل نام امیر حمزہ نہیں بلکہ میر حمزہ ہے، اشعار میں میر حمزہ کی بجائے امیر حمزہ پڑھا جائے تو شعر وزن سے گر جاتا ہے ، چنانچہ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بلوچوں میں عربی النسل گروہ شامل ہوئے ہونگے، بالخصوص بعض محقق رندوں کے بارے میں کہتے ہیں ، انکا تعلق عربی النسل سے ہے، اور یہی لوگ اشیشی ( Assissins) تھےاشیشی عربستان سے جب ایران پہنچے تو فارسی زبان میں رند کہلائے ۔( واللہ و عالم ) ہوموجینئس سوسائٹی کے اقوام آریائی ہوں، منگول یا عرب انکی بنیادی خصوصیات میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں من حیث القوم بلوچوں میں نہ تو ہوموجینئس سوسائٹی کی خصوصیات پائی جاتی ہیں اور نہ ہی انکی نیشنلزم لسانی یا Ethnicہے ۔ہوموجینئس سوسائٹی کے برخلاف دوسری سوسائٹی یا قوموں کی تشکیل کی بنیادی ہیٹروجینئس یا مخلوط النسل یا کلچرل بنیادوں پر ایک وحدت میں سموئے ہیں۔ اس سوسائٹی میں مختلف النسل کے لوگ بوجوہ تاریخی طور پر یکجا ہوتے رہے ، چنانچہ مشترک تاریخ کے ساتھ ، مشترک مہاجرت کی اور ایک مشترک سرزمین پر آباد ہوئے اور اس گل زمین میں رہ کر اس کی حفاظت ، آبادکاری کی بابت مشترک جدوجہد کی اور مشترک خواہشات کے تابع ایک وحدت میں پروئے گئے ، اس سوسائٹی کی خصوصیات یوں گنائے گئے۔
سوسائٹی فیڈرل ہے ، یاد رہے فیڈرل بنیادوں پر استوار سوسائٹی ہوتی ہے، فیڈریشن ریاستی بنیادوں پر استوار جواز نہیں رکھتی، فیڈریشن کا اولین تجربہ امریکہ میں کی گئی اور یہ آئیڈیا امریکی گیارہ ریاستوں کے روزمرہ کی چپلقشوں سے نجات کی خاطر وہاں کے مقامی باشندوں نے دی کہ دیکھیں ہماری سوسائٹی کسی قدر فیڈرل بنیادوں پر استوار تقسیم ، اختیارات کے باعث پر امن ہے۔
فیڈرل بنیادوں پر استوار سوسائٹی خودمختار بھی ہے، یعنی Autonomous Hierarchy
تقسیم اختیارات
برابری
مشاورت
مخلوط النسل یا ہیٹروجینئس سوسائٹی کی نیشنلزم کو سوک Civicنیشنلزم کہتے ہیں ، چنانچہ انتھراپوجی کے تمام محقق اور ماہرین بلوچوں
کا تعلق ہیٹروجینئس سوسائٹی سے جوڑتے ہیں اور اگر تاریخی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو بلوچوں کی من حیث القوم خصلت اور خصوصیات ہیٹروجنیئس سوسائٹی کی ہیں۔ محقق اور ماہرین کے مطابق نہ صرف یہ کہ بلوچ قوم کی خصوصیات ہیٹروجینئس ہیں بلکہ حیران کن حد تک بلوچ سوسائٹی کو اخلاقی اقدار Moral Values ریگولیٹ کرتے ہیں ، جن میں اوّلیت غیرت اور عزت کو حاصل ہے ، اور یہی اقدار ، ہیرارکی کی موجودگی میں برابری کے تصور کی تخلیق کرتے ہیں ۔
’’ میں مانتا ہوں۔ میر چاکر ، رندوں کے سرکردہ اور سربراہ ہو ، تمہارے ایک بلاوے پر ہزاروں مسلح لشکر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، لیکن میں (شے مرید) بھی کسی سے کم نہیں ، میرے اپنے ہم زاد بے شمار ہیں ‘‘ ( بلوچی اشعار کا ترجمہ)
(برابری کا یہ تصور نہ صرف مردوں تک محدود ہے بلکہ اگر بلوچی اشعار اور روایتوں کا مطالعہ کیا جائے ، تو بلوچ خواتین ، حانی ، ماہناز ، سیمک ، سمو وغیرہ نے مردوں سے اپنی برابری حیثیت کو برقرار رکھا، اور جب مست توکلی نے سمو کی حیثیت کو گٹھانے کی کوشش کی ، تو آج تک شادی بیاہ میں بلوچ خواتین لاشعوری احتجاج کے طور پر مست توکلی کے اشعار کے انتہائی مترنم ہونے کے باوصف نہیں گاتے ۔دور کیوں جائیں، جب انگزیزوں نے کوشش کی کہ خان خداداد کو مطلق العنان حکمران بنائیں تو بلوچ ہیرارکی کی سرداروں نے احتجاجی مراسلہ انگریز سرکار کو بھیجا ، اس کا ایک ایک لفظ عنوان ہیٹروجنیئس سوسائٹی کےخصوصیات پر مبنی بلوچ قومی سیاسی تشکیل کی عکاسی کرتا ہے ۔
اب جہاں بلوچیت یا بلوچ نیشنلزم کا سوال ہے، تو بلوچ پوری تاریخ میں مرکزیت یا احساس وحدت ’’ بلوچ‘‘ کو حاصل ہے ۔
’’ ہم وہ بلوچ ہیں ، جو حلب سے چلے ہیں ‘‘ اور جب رند و لاشار کی تیس سالہ جنگوں نے بلوچو ں کو نڈھال کیا، تو میر بکر ( روایت میں انہیں میر چاکر کا نواسہ /پوتا قرار دیا جاتا ہے) کے اشعار میں بھی وحدت اور مرکزیت بلوچ کو دی گئی۔
’’ عہد اور زمانے نے بلوچوں کو نڈھال کیا ہے‘‘ میر گوہرام جب چاکر کو طنزیہ مخاطب کرتا ہے
’’چاکر اپنے کینہ پروری کو کم کر ، ورنہ کل کلاں بچے بلوچی کیلئے ترسیں گے اور خواتین جٹکی بولیں گی‘‘
میر بیورغ بلوچستان مہاجرت کرکے ست گرہ اوکاڑہ پنجاب جانے کے بعد کہتے ہیں۔
’’چلو وہاں چلیں ، جو بلوچ دیس ہے، بلوچ دیس دل کی گہرائیوں پیارہ ہے‘‘ ۔
بیورغ جب قندھار میں قید کیا گیا ، تو جو شعرو شاعری کی، مرکزیت اور وحدت بلوچ کودی گئی ۔
’’ بوژ بل ہمے یاندیءَ بلوچ یئفا ‘‘
’’اس بلوچ قیدی کو آزاد کر‘‘
بلوچ وحدت اور مرکزیت کا بیانیہ اور تصور برقرار رہا ، بالاچ گورگیج کا عہد آتا ہے ۔ بلوچ عزت اور غیرت کے تصور میں اسکا بھائی پناہ میں آئے مالدار خاتون کی اونٹوں کے ریوڑ کو ڈاکہ زنی سے بچانے کیلئے اپنی جان کی قربانی دیتا ہے اور بالاچ بھائی کے قتل کا بدلہ لینے جب میدان میں اترتا ہے تو پھر بھی بلوچ وحدت اور مرکزیت کا تصور بنیادی حیثیت میں برقرار رہتا ہے۔
’’ یہ پہاڑ بلوچوں کے قلعے ہیں‘‘
بھائی کے قتل کے بدلے میں چھیاسٹھ مخالفین کو قتل کرتا ہے ، مگر بلوچ نسبت رکھنے پر پشیمانی کا بھی شکار ہے۔
’’ چیاسٹھ بلوچ قتل کئے ہیں ‘‘
اگر بلوچ لوک کہانیوں اور روایت کا مطالعہ کریں تو بلوچ میتھالوجی اور امثال میں بلوچ وحدت اور بلوچ مرکزیت کو اوّلیت حاصل رہی ، بلوچ غیرت ، بلوچی عزت ، انصاف و عدل کے معنوں میں ’’ بلوچی ‘‘ بیانیہ کا استعمال قابل توجہ ہے ۔
’’ میرے ساتھ بلوچی کریں ‘‘
بلوچ قومی ریاست اور ریاستی آئین اور قوانین کا بلوچ روایتوں سے ہمکنار تاریخ نے بھی بلوچ اور بلوچیت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ، بلوچ سربراہاں مملکت نے بجائے اپنے ناموں کے ساتھ برداری یا بادشاہی القاب کے ہمیشہ بلوچ لائقہ اور سابقہ کو پسند کیا ۔ میر نصیر خان بلوچ ، میر احمد یار بلوچ ۔اس میں شک نہیں ، انگریز نے بلوچ قومی ریاست پر قبضہ کرکے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کئے، ایک حصہ ایران، دوسرا افغانستان، اسی طرح پنجاب اور سندھ کے علاوہ بلوچ گل زمین کا ایک حصہ موجودہ خیبر پختونخواہ میں شامل کیا ، لیکن اس کے باوصف بلوچ قومی ریاست ، ریاست قلات کے ساتھ معاہدوں میں ریاست کی برائے نام حیثیت کو برقرار رکھا۔ پاکستانی غالباََ قران شریف و احادیث نبوی کے بعد قائد پاکستان جناب جناح کے اقوال و اعمال کو حرف آخر کی حیثیت دیتے ہیں ، اس پس منظر میں قائد پاکستان جناب جناح نے بلوچ قومی ریاست ، ریاست قلات کا جو کیس 1946کے برطانوی کیبنٹ مشن میں پیش کیا ، اسکا مطالعہ اور عمل درآمد نہ صرف بلوچ ، بلوچیت بلکہ مقبوضہ پاکستان کے آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے، جب پاکستان نے بلوچ قومی ریاست قلات کے الحاق کا مسئلہ اٹھایاتو ریاست کے دونوں ایوانوں کے ممبران کی تقاریر اور تجاویز بلوچ اور بلوچیت کے بیانیہ اور تصور کو نمایاں کرتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ مارچ1948کو پاکستان نے ریاست قلات پر فوجی قبضہ کیا اور اس کے ساتھ قلات نیشنل پارٹی کے رہنما ، بلوچ ، بلوچیت اور قومی آزادی کی جدوجہد سے منحرف ہوکر ذاتی اور گروہی سیاسی مفادات کے پیچھے پڑگئے تھے ، البتہ اپنی اس انحرافی ذاتی گروہی مفادات کا سیاسی نعرہ بلوچ اور بلوچیت ہی کو استعمال کرتے رہے ، جو آج بھی سیاسی و عسکری تناظر میں موجود ہے، جس نے یقیناًبلوچ اور بلوچیت کے احساس کو زندہ رکھا ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: ۔تشکیل قوم اور نیشنلزم کی بابت زبان کا رول اور بلوچی زبان اس تناظر میں کیا مقام رکھتا ہے ؟
واجہ صورت خان مری: ۔ قوم ، نیشنلزم کی بابت زبان کا ایک جزو ہونا تو ممکن ہے، البتہ مکمل بنیاد ممکن نہیں ، کیونکہ دنیا میں کئی اقوام ہیں جو نا صرف یہ کہ دو یا تین مختلف زبانیں بولتے ہیں بلکہ انکی مادری زبان قومی تشکیل کے مراحل سے جوڑ نہیں کھاتا۔وہ غیر زبان بول کر اپنی قومیت ، نیشنلزم اور قومی ریاست کی تشکیل کو اوّلیت دیتے ہیں ۔ قوم ایک مشترک تاریخ ، جدوجہد اور خواہشات کی مرہون منت ہے ۔ بلوچ کیلئے بلوچی ، براہوئی اور سرائیکی وغیرہ یکساں اہمیت کے حامل ہیں ، جہاں تک بلوچی کا سوال ہے تو قطع نظر بھڑک بازی اور دعوؤں کے سائنسی اور جدید تقاضوں کے پس منظر میں بلوچی ، اب تک زبان کے مقام تک نہیں پہنچا ، وہ لہجوں کے مرحلوں میں ہے۔ نا تو بلوچی کا کوئی مستند رسم الخط ہے اور نہ ہی یکساں حیثیت کا حامل سٹینڈرڈ زبان ۔ علاقائی لہجوں میں بولی لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ اہمیت کا حامل سوال یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں ایسا کیوں ہے ؟
ہم سمجھتے ہیں اہمیت کا حامل سوال ترجیحات کا ہے، آج بلوچ ایک مقبوضہ اور کالونی کی حیثیت رکھتا ہے۔ قابض ہمیشہ مقبوضہ اور کالونی کو زندگی کے تمام شعبوں میں احساس کمتری کا شکار رکھتا ہے، قومی زندگی کو پسماندہ رکھا جاتا ہے ، روایات اور زبان کو مضحکہ خیز قرار دیتا ہے، ہم سمجھتے ہیں بلوچ کیلئے ترجیح بلوچی ، مادری زبانوں کی قومی نجات اور آزادی ہے، جو شعوری اور لاشعوری مادری زبان اور زبانوں کی ترویج کا باعث بنتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : بلوچ سیاست میں آپکا شمار ہمیشہ ایک صاف گو دانشور اور نقاد کے طور پر ہوتا ہے۔ آپکے بے با ک تنقید کی وجہ سے اکثر آپ سے نارضگی کا اظہار ہوا ہے لیکن وقت نے آپکے تماموں خدشوں کو سچ ثابت کردیا۔ اب جبکہ آپکی باتیں تجربوں کے بعد مستند مانی جاتی ہیں اور لوگ آپ کو سننا چاہتے ہیں۔ ایسے حالات میں آپ نے لکھنے، کمزوریوں کی نشاندہی کرنے اور رہنمائی کرنے سے کیوں کنارہ کشی کرلی؟
واجہ صورت خان مری: ہم نے طالب عملی کے زمانے میں میر شیر محمد ، میر مٹھا خان، امان گچکی وغیرہ کی دل جوئی کے بناء 1959/60سے بلوچی میں لکھنا شروع کیا اور اتفاق سے اس دوران ملازمت بھی ریڈیو پاکستان کے شعبہ بلوچی اور بعد ازاں بلوچی رسالہ ’’ اولس ‘‘ سے وابستگی رہی، جس کے بناء پر بلوچی کے تمام لکھنے والوں سے براہ راست وابستہ رہا ، البتہ تجربہ تلخ تھا ۔ وہ یہ کہ بلوچی کے ایک لفظ سے ایک ہزار الفاظ پر لکھنے والا اپنے آپ کو بلوچی کا علامہ سمجھتا تھا اور سمجھتا ہے اور اس نے ’’ الفاظ و ترکیب ‘‘گھڑنے کا کارخانہ کھول لیا ۔ اس فسطائیت اور نراجیت سے گھبرا کر جب انیس سو نوے کی دہائی کے اوائل میں نواب خیر بخش کے ایما ء اور دل جوئی سے بلوچ اور بلوچ نیشنلزم پر لکھنا شروع کیا تو اردو کا انتخاب کیا چنانچہ ڈاکٹر ملک طوقی سمیت کئی بلوچ دانشوروں نے تنقید کی اور برُا منایا ، جس کے پس منظر میں ’’ ہم اردو میں کیوں لکھتے‘‘ اظہار خیال میں ہم نے موقف اختیار کیا کہ تحریروں کے اظہار کی مناسبت سے یعنی بلوچ اور بلوچ نیشنلزم ، ہم چاہتے ہیں پیغام اور اظہار زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے لہٰذا انتخاب اردو کا کیا گیا ، چنانچہ انیس سو نوے اور سن دو ہزار کی پہلی دہائی بلوچ ، بلوچ نیشنلزم کے مباحث اہمیت کے حامل رہے، البتہ اس دوران دو اہم پیش رفت قابل توجہ ہیں 2000ء کے دوران بی ایل اے کا ظہور اور بعد ازاں پاکستان قابض اسٹیبلشمنٹ کی مقصد برای یعنی ابتداء میں کالونیلسٹ پاکستان اسٹبلشمنٹ نے بلوچ ، بلوچ نیشنلزم کے مباحث ، مناظرے ، سمینار ، مظاہرے بالخصوص اخباری رپورٹوں سے چشم پوشی کی، تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے، پانچویں انسرجنسی گذشتہ بغاوتوں سے کس حد تک مختلف ہے، وابستگیاں کیا ہیں، کون کون کہاں کس حیثیت میں ہے ،تاکہ کاونٹر انسرجنسی عملیات میں نشان زدگی آسان ہو۔دوسری طرف اس سرکاری دل جوئی کے پس منظر میں مباحث کے ساتھ بلوچ پبلی کیشنز میں بھی اضافہ ہوا، ہمارے ساتھ المیہ یہ ہو اکہ مختلف پبلی کیشنز اداروں نے یہ اسرار شروع کیا کہ اگر تم نے اپنی تحریریں ہمیں چھاپنے کیلئے بھیجی ہیں تو کسی دوسرے کو نہ بھیجیں، چنانچہ اس چپقلش اور پابندی کے بنا ء نہ صرف ہماری دلچسپی بلکہ پبلی کیشن محدود ہوتے گئے، تاآنکہ سرکار کی پالیسی تبدیل ہوگئی اور اس نے ’’ کریک ڈاؤن ‘‘ کی ٹھانی اور یوں بلوچوں کے بعض پبلی کیشنز بند ہوئے۔ دیگر نے بلوچ اور بلوچ نیشنلزم کی تحریریں چھاپنا ہی بند کئے۔ ہم نے کوشش کی انگریزی میں لکھیں ، انگریزی اخبارات کا تقاضہ تھا کہ تحریریں پاکستانی پس منظر میں ہونے چاہئیں، اس دوران ایک انگریزی تحریر’’ مذہبی فرقہ واریت یا ہزارہ برادری نشانہ پر ‘‘ کا ردعمل بیرون بلوچستان شدید ہوا، چنانچہ اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی لکھنا اور چھپنا منقطع ہوئے۔ اس میں شک نہیں ، اسکا اثر یہ ہوا کہ جہاں ہم اپنی وابستگی سے تو کنارہ کش نہ ہوئے، ہمارا میل ملاپ بھی محدود ہوتا گیا۔ میل ملاپ ، بحث مباحثہ اور تحریروں میں ورائٹی اور نقار کی خاطر زیادہ سے زیادہ تحقیق اور مطالعہ د رکار تھا ۔ نئی کتابوں اور تحریروں کی ٹوہ لگی رہتی تھی، اس کے ساتھ عمر اور صحت کی دل جوئی ایک اضافی جذبہ تھا ۔ مباحث اور تحریروں کے نہ چھپنے سے یہ دل جوئی محدودی کی حدیں چھونے لگا، اس دوران بلوچ ، بلوچ نیشنلزم پر تحقیق کرنے والے اور طلبا سے ملاقاتیں تو ہوتی رہیں، لیکن مطالعہ اور تلاش کی محدود یت کے بناء’’ اپنے آپ کو دہرائے جانے‘‘ یعنی Repetitionکی بوریت سے دوچار ہوتے گئے، جو یقیناًدل شکنی کا باعث بنی۔ یہاں بلوچ سیاسی اور عسکری مناقشے، طنز ، طعنے اور الزامات کا سلسلہ اپنی جگہ ، آج آپ نے پوچھا ، بول رہے ہیں ، اپنے آپ کو اور خیالات کے دہرائے جانے پر معذرت۔
دی بلوچستان پوسٹ : موجودہ حالات کو دیکھ کر آپ بلوچ قومی تحریک کے مستقبل کے بابت کیا امکانات دیکھ رہے ہیں؟
واجہ صورت خان مری : کسی ملاقات میں موجودہ بلوچ، بلوچ نیشنلزم اور انسرجنسی سے بادی النظر مایوسی کے پس منظر میں ہم سے پوچھا گیا ، اگر موجودہ چھٹی انسرجنسی کا انجام ماضی کی انسرجنسی کی مانند پسپائی ہو تو ؟
ہمارا جواب تھا ، ایسے میں ساتویں انسرجنسی کی ابتداء کی تیاری ہوگی ۔
دی بلوچستان پوسٹ : کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک صحیح سمت میں گامزن ہے یا تبدیلیوں کا متقاضی ہے ؟
واجہ صورت خان مری : اپنے مبینہ اعلانات کے ماتحت یعنی قومی آزادی کے پس منظر میں موجودہ چھٹی انسرجنسی کی ابتداء یعنی بی ایل اے کا ظہور عالمی سطح کے مبصرین کے مطابق بھی پسندیدہ اور دل جوئی کا باعث تھا، البتہ سائنسی معروضی بنیادوں سے ہٹ کر تقسیم در تقسیم ، بالخصوص ترجیحات سے چشم پوشی یعنی سیاسی تنظیم ، اس کے تقاضے اور بالادستی کے فقدان نے ہمیشہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچایا۔ آپ کو یاد ہوگا ، کئی سال قبل ایک تجزیے میں ہمارا کہنا تھا ، اگر تحریک تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئی تو ( توبہ نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ آسمانوں سے اترے تو بھی ان گروہوں کی آپس میں کشت و خون کو روکا نہیں جاسکے گا۔ ضرورت ایک سائنسی بنیادوں پر استوار ایک بالادست سیاسی تنظیم اور بلوچ بیانیہ Baloch Narrative کی عدم موجودگی قابل توجہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اگر تحریک اسی رخ پر چلتا رہا اور کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں لائی جاتی تب آپ اس تحریک کو چند سالوں میں کہاں دیکھتے ہیں ؟
واجہ صورت خان مری : ہم نے آپ کے سوال ، ہم کیوں نہیں لکھتے ، وہاں تبدیلی کے فقدان یا حالات کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کی بابت کہا تھا کہ انسان دہرائے جانے یعنی Repeatationکا شکار ہوتا ہے۔ عصری حالات ، نئے تقاضوں ، بالخصوص سائنسی اور معروضی بنیادوں پر نظریاتی وابستگی کی اوّلیت کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ قومی آزادی اور انقلابی تحریکوں میں دشمن اور دشمن کے آلہ کار کے دلوں میں تمام حربوں سے دہشت اہمیت کا حامل ہے اور آج دہشت اور دہشت گردی نام کو لفظ نفرت بنایا گیا ۔ قومی آزادی اور انقلاب کی بنیاد ’’ عوامی جمہوری Social Demoracyپر استوار ہوتا ہے، آج اسلامی مذہبی رجحانات کو ووٹ اور الیکشن کے ذاتی ، گروہی مفادات کے تابع ’’ مذہبی انتہا پسندی ‘‘ کا نام دیا گیا ، کیا ہمیں مصر کے ’’ السیسی ‘‘ کے عسکری تختہ پلٹ کو سراہنا چاہیے؟
اپنی تمام تر سائنسی بنیاد کی کمزوریوں ، سیاسی تنظیم کی بالادستی کے فقدان ، عسکری پسپائی باالفاظ دیگر دو قدم پیچھے ، ایک قدم آگے کی سٹرٹیجی کے باوصف بلوچ نیشنلزم اور بلوچ قومی ریاست کا شعور اور وابستگی آگے بڑھ رہی ہے ۔ عالمی حالات اگرچہ آج بلوچ ہمدرد نہیں ، کل کلاں یا اگلے کل سیاسی اور عسکری پیش رفت ’’ نہ جیت نہ ہار ‘‘ سقم سے دوچار ہوگا ، اور بلوچ وحدت و مرکزیت اپنے بیانیہ منانے میں کامیاب ہی ہوگا ۔
دی بلوچستان پوسٹ : گذشتہ دو دہائیوں پر مشتمل تحریک کے دورانیے پر اگر ایک نگاہ دوڑائیں تو آپ کی نظر میں بلوچ نے اس سے زیادہ کھو یا یا زیادہ پایا ؟
واجہ صورت خان مری : بلوچ قومی آزادی یا قومی ریاست کی کالونی میں تبدیلی 1839سے ہوئی ہے ۔ 27مارچ 1948کو بلوچ مقبوضہ حالت میں ایک حد تک آچکا ، قابل توجہ امر یہ ہے کہ تمام تر جبر ، مظالم ، ناانصافی، بلوچ آلہ کاروں کے ساتھ ساتھ رشوتوں ، اقتدار کی لالچ سمیت دیگر لالچوں کے باوجود بلوچ من حیث القوم قومی آزادی سے دستبرار نہ ہوا، جو قربانیاں بلوچ ’ قطع نظر ذاتی گروہی مفادات‘ آج دے رہا ہے، وہ نہ گذشتہ کل نظر آیا ، نہ پوری بیسویں صدی کے دوران، سرد جنگ کے خاتمے پر عالمی سطح پر اتفاق رائے تھا کہ دنیا بھر کے چھوٹی ،بڑی ، علاقائی ، عالمی جنگوں کا فاتح قوم اور قومی ریاست ‘‘ ہے بلوچ ایک مسلمہ قوم ہے، قومی ریاست ، قومی حق اور حصول بلاشک و شبہ ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ : سی پیک سے اس خطے میں آپ کیا تبدیلیاں دیکھتی ہیں اور اس حوالے سے آپ کے خدشات کیا ہیں؟ بادی النظر سی پیک کو ایک معاشی پلان کی طرح متعارف کیا جارہا ہے لیکن کیا اس سے پاکستانی اور چینی فوجی مفادات وابستہ ہیں؟گوادر پورٹ اور سی پیک سے بلوچ قوم پر سیاسی، سماجی اور معاشی لحاظ سے کیا ممکنہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟بلوچ سیاسی حلقوں میں سی پیک کو بلوچ کیلئے من حیث القوم ایک زہر قاتل کے طور پر تعبیر کیا جاتا ہے، کیا بلوچ میں سیاسی، سفارتی اور فوجی لحاظ سے اتنی قوت ہے کہ وہ اس منصوبے کو روک سکیں یا اسے اپنے حق میں موڑ سکیں؟اگر بلوچ اس قابل نہیں ہے کہ وہ سی پیک کے سامنے کھڑا ہوسکے تو پھر وہ صلاحیت کیسے پیدا کی جاسکتی ہے یا کونسے اقدامات ضروری ہیں؟
واجہ صورت خان مری : کچھ عرصہ قبل غالباََ 2009 ء میں جب سی پیک کا غلغلہ بھی نہ تھا ، ہم نے ایک مضمون بعنوان Baloch issue made in china solutionلکھا تھا۔ ہماری مطبوعہ کتاب میں شامل ہے۔ ہم نے بلوچ مسئلہ کا ، ساختہ چین حل، کی بابت یہ بتانے کی کوشش کی ۔ وہ یہ کہ چین کی تجارت اور سرمایہ کاری بعینہ انگریز کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی مانند ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اجراء آہستہ آہستہ سیکیورٹی الگ، طاقتور فوج کے قیام اور برصغیر پر انگریز کے قبضہ پر منتج ہوا۔ یہی عمل چین بلوچستان میں دہرارہا ہے، ابتدائی سرمایہ کاری ، سی پیک اور سی پیک کی سیکیورٹی اور اب طابع مرضی فوجوں کی تعیناتی اور بات فوجی اداروں تک جاپہنچی ہے۔ اس کے برعکس بلوچ سیاست اور عسکریت بوجوہ آنکھیں بند کرکے ، ’’پریس ریلیز‘‘دل جمعی میں الجھا ہوا ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ : کیا وجہ ہے کہ اس طویل جنگ اورہزاروں قربانیوں کے باوجود بلوچ تحریک عالمی پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور کوئی قابل ذکر سیاسی یا سفارتی عالمی حمایت حاصل نہیں کر پائے ہے ؟
واجہ صورت خان مری : بلوچ سرزمین حقیقت 1839کو قومی ریاست ، گل زمین کھو بیٹھا ۔ اس کے الگ وجوہات ہیں ، انہی وجوہات کے تناظر میں بلوچ، بلوچیت قائم رہی، اقتدار، حاکمیت کو اولیت دی گئی ، البتہ گل زمین اور گل زمین کی وابستگی توجہ طلب رہی، بڑی حد تک ذمہ داری خوانین قلات پر عائد کی جاسکتی ہے ، جنہوں نے حاکمیت اور اقتدار ( باہمی چپقلش) کی خواہش کی ، اقتدار اور حاکمیت کے تقاضوں پر توجہ نہ دی ، علم و شعور کا ساقط رہا ، نیشنلزم معروضی انداز میں پنپ نہ سکا ۔ دوسری عالمی جنگ سے نڈھال انگریز نے برصغیر اور اردگرد کے مقبوضات خالی کرکے جانے کی ٹھانی ، اور اولین مرحلہ میں ان کو اپنے مفادات ایک آزاد بلوچستان کے قیام میں نظر آئے، البتہ برسرزمین حقائق اس کے یوں برعکس تھے کہ بلوچ ذمہ داریاں نبھانے کیلئے تیار نہ تھے، عالمی حالات تیزی سے بدل رہے تھے ، امریکہ ایک طاقت بن کر ابھر رہا تھا ، سامراج دشمن اور سوشلزم برصغیر کی سرحدوں پر دستک دے رہا تھا۔ بھارت، پنڈت نہرو وغیرہ کی بائیں بازو کے رجحانات کے باعث سامراج کیلئے قابل اعتماد نہ تھا اور بلوچ بوجوہ بین الاقوامی ذمہ داریاں اور عصری تقاضوں کو نبھانے سے قاصر تھا۔ بین الاقوامی فیصلے پاکستان کے حق میں گئے، پاکستان سامراجی مفادات کی خاطر مدارات کرسکتا ہے۔
بین الاقوامی ڈویلپمنٹس بالخصوص بھارتی کانگریس کے اثرات بلوچ سیاست تک پہنچ چکے تھے، البتہ بجائے معروضی وابستگی کے ذاتی و گروہی مفادات چھا گئے۔ نہ صرف یہ کہ اس نے آغا عبدالکریم کی بغاوت کا ساتھ نہ دیا ، بلکہ بلوچ فطری مزاحمت جو مختلف انسرجنسیوں کی شکل ابھرا ، ذاتی گروہی منحرف سیاست کی سودا بازیوں کا شکار ہوتا گیا، چنانچہ بلوچ فطری آزادی پسندی اور مزاحمت تو زندہ رہا ، البتہ معروضی اور سائنسی بنیادوں پر استوار لائحہ عمل سے قاصر رہا، نتیجہ اولین سے لیکر پانچویں انسرجنسی معروضی سائنسی بنیادوں پر استوار نہ تھا ۔ بی ایل اے کی چھٹی انسرجنسی کی بنیاد معروضی تقاضوں پر رکھی تو گئی ، مگر بوجوہ سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھائی نہ جاسکی ، تقسیم در تقسیم کا شکار ہے ۔
عالمی دنیا تمام ڈولپمنٹس پر نظر جمائے ہوئے ہیں، دوسری طرف انکے اپنے مفادات اور تقاضے ہیں جو تاحال بلوچ خواہشات سے ہم آہنگ نہیں ، چنانچہ جہاں عالمی مفادات بلوچ خواہشات سے ہم آہنگ نہیں وہیں بلوچ قوت ’’نہ جیت نہ ہار ‘‘کے مقام تک آسکا ۔ اولین تقاضہ بلوچ کو اپنی طاقت اور قوت ثابت کرنا ہے ، عالمی قوتیں خود بخود ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں ۔
دی بلوچستان پوسٹ : بلوچ قومی سوال کو عالمی سطح پر منوانے کیلئے کونسے اقدامات یا لائحہ عمل ضروری ہیں ؟
واجہ صورت خان مری : پہلی بات یہ ہے کہ عالمی سطح کی حکومتوں اور ریاستوں کے اپنے مفادات ہیں ، کیا آج عالمی قوتیں اس ریجن میں بلوچ، پشتون ،کرد یا پسّے ہوئے اقوام کے مسئلے سے نابلد اور ناواقف ہیں ؟
ہاں البتہ یہ ممکن ہے ، عالمی سطح کے بعض محقق ، ماہرین اور دانشور بلوچ ، بلوچ تاریخ ، بلوچ نیشنلزم سے کماحقہ واقفیت نہیں رکھتے، وہ انگریز سامراج اور پاکستانی یا مفادات کے عالمی طاقتوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوں ۔دوسری طرف بلوچ قومی آزادی اور انقلابی تحریکوں کے معروضی تقاضوں سے ہم آہنگ بھی نہیں ۔ اگر بلوچ سیاسی اور عسکری ہم عصر گروپ بلوچ قومی آزادی اور انقلاب کے خواہاں ہیں ، تو کن بنیادوں پر بٹے ہوئے تقسیم اور ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں ؟۔
ماسوائے ڈاکٹر اللہ نظر کے دیگر تمام آزادی طلب گروپس بزعم خود اعلیٰ درجہ کے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کے قول و فعل میں بنظر عالمی دانشوروں اور ماہرین شدیدتضاد ہے ، نوابی ، سرداری خواہشات کا اظہار ہوتا ہے ۔منظم معروضی سیاسی تنظیم سے وابستگی کا فقدان ہے۔ کسی قومی بیانیہ Narrativeنظر نہیں آتا ۔ اوّلین تقاضہ اپنی سرزمین پر اپنے آپ کو اور وجود منوانے کا ہے، ایسے بھی نہیں لگتا کہ عالمی رائے عامہ یا طاقتیں کس سے رجوع کریں ؟
دی بلوچستان پوسٹ : بلوچ قومی تحریک آزادی مختلف دھڑوں میں تقسیم ہے، ایک مقصد اور طریقہ کار ہونے کے باوجود پھر بھی یہ اپنا قوت یکجا کرنے اور کوئی اتحاد قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالانکہ وقت کی ضرورت، عوامی خواہش اور عالمی دوست خواہوں کا بھی خواہش یہ ہے کہ بلوچ کوئی مضبوط اتحاد قائم کریں لیکن ان سب کے باوجود وہ اتحاد قائم کرنے میں کیوں انتہائی ناکام نظر آتے ہیں؟
واجہ صورت خان مری : بادی نظر میں ڈاکٹر اللہ نظر کی بی ایل ایف یا بی این ایم /بی این ایف کی بلوچ قومی آزادی ، عوامی جمہوری ایجنڈا کی معروضی وابستگی اور تنظیمی ڈھانچہ واضح ہیں ۔ بلوچ سیاسی اور عسکری تنظیموں کی عملیات پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے بلوچ مخصوص علاقوں تک محدود نظر آتا ہے ۔ کسی تنظیم کا بلوچ قومی آزادی کی خواہشات کا پیغام پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے بلوچ علاقہ سے باہر نظر نہیں آتا ۔
جہاں موضوع یعنی قومی آزادی اور انقلابی تحریک انتہائی وسیع مطالعہ ، تحقیق، تجربوں کا متقاضی ہے ۔ ماننا پڑتا ہے ، آج اکیسویں صدی تک بے شمارقو می آزادی اور انقلاب کی بابت مباحث ہوئے، تحریکوں کے عملی تجربے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے ، کیا ان مباحث اور تجربوں کو یعنیہ بلوچ معاشرتی، معاشی، جغرافیائی، روایتی مزاج پر منتقل کرسکیں گے ؟ جہاں بلوچ قومی آزادی اور انقلاب کا خواہاں ہے، وہیں ایک معروضی سیاسی تنظیم کی بالادستی نظر نہیں آتی ، سائنسی طور پر تنظیم کی ابتدائی اسٹیج سے ہی دشمن کے حاشیہ بردار اور آلہ کار پر نظر رکھی جاتی ہے، اس کو تنہا کرکے اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا بھی اوّلین تقاضوں میں شمار ہوتا ہے۔ آج کے بلوچ سیاست اور تحریک پر نظر ڈالیں ، دعوؤں اور پریس ریلیز، قومی آزادی اور انقلاب کا وسیلہ قطعاََ نہیں ہوسکتا، یہاں پوچھا جاسکتا ہے ، جو اسٹبلشمنٹ پنجابی وزیر اعظم کو بہ یک جنبش قلم اقتدار کی بلندیوں سے گرا کر خاک نشین کرسکتا ہے ، اس نے میڈیا یا مقامی حاشیہ
بردار پریس کو کیونکر اجازت دے رکھی ہے ، وہ ہر روز بلوچ آزادی پسندی کے پریس ریلیز چھاپتا ہے ؟ یاد رہے ، ابتداء میں قومی آزادی کے مباحث ، سیمینار اور مظاہرے جنہیں ہم ’’ غیر مضر‘‘ فعالیت کہتے تھے ، کی بھر پور اجازت دے رکھی تھی ، اب وہ مباحث ، سیمینار اور اتحاد کیوں پابند سلاسل ہوچکے؟
اتحاد دور کی سوچ ہے، معروضی ابتداء کی سوچنا چاہیے ؟
دی بلوچستان پوسٹ : خطے میں ابھرتی ہوئی یا ابھاری ہوئی مذہبی شدت پسندی اور اسکے اثرات میں آپ بلوچ قومی تحریک کو کہاں دیکھتے ہیں؟
واجہ صورت خان مری : نیشنلزم اور فاشزم کے درمیان فرق کو سمجھنے کیلئے بھی ایک شعور درکار ہے ، آج صوبہ بلوچستان پارلیمنٹ سیاست کے ووٹ الیکشن کے پس منظر میں ’’ بلوچ پشتون‘‘ یا برابری کے نعرے نیشنلزم ہیں یا فاشزم ؟کیا سیکولر بنیادوں پر استوار معاشرے میں مذہبی رجحان رکھنا ، نماز ، روزہ، مذہبی انتہا پسندی کہلائی جائیگی ؟ طالبان کا ترجیحی نعرہ ’’ میرے ملک سے نکل جاؤ‘‘ مذہبی انتہا پسندی ہے ، کیا طالبان نے برسراقتدار حکومتی دارلخلافہ قندھار بنا کر یا پشتو کو دفتری زبان قرار دے کر انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا تھا ، القاعدہ یا اسامہ کی ترجیحی نعرہ’’ عرب شہنشاہیت کی لوٹ مار کا خاتمہ‘‘ مذہبی انتہا پسندی ہے ، تو امریکہ کی عراق پر حملہ ، تورہ بورہ پر بمباریاں سیکولر پروری ہیں ؟
آغا عبدالکریم کی بلوچ آزادی بغاوت کا ساتھ کیا ، سیکولر ، کمیونسٹ کارڈ ہولڈروں نے دیا تھا ، یا بلوچ مذہبی علماء نے ؟کیا مولانا جمالدینی ، مولانا عمر ، مولانا عرض محمد ،مولانا عبدالحق ، مولانا احتشام الحق کی قومی وابستگی ’’ قلات نیشنل پارٹی کے منحرف قیادت سے کم تر شمار کیا جائے گا ؟ ذاتی طور پر میں اس ترکیب ’’ مذہبی انتہا پسندی‘‘ یا دہشت گردی کے سامراجی پروپیگنڈے کی اپنائیت کو سمجھنے سے قاصر رہا ۔ آج کا بلوچ ، پاکستان سیاست اور میڈیا مباحث کے تراکیب اپنانے کا شکار ہے۔ جہاں مذہبی انتہا پسندی خطرہ ہے ، تو قومی انتہا پسندی ، مفادات کی سیاسی انتہا پسندی وغیرہ کا مقام کیا ہے ؟
جب قومی انقلابی بیانیہ کی بنیاد ’’ عوامی جمہوریہ ‘‘ ہوگی، تو میں سمجھتا ہوں مصر کے السیسی اول کیلئے گنجائش نہیں ، یقیناًفرانز فینن ، سارتر سے متاثر اور متفق ہونگے، جہاں سارتر نے ’’ افریقہ کے جنگل میں ایک سفید فام کی موجودگی پر سیاہ فام کے طیش میں آنے پر اس کے قتل کو ناجائز قرار نہیں دیا ۔
یاد دہانی کیلئے ایک سمینار میں ’’سیکیورٹی کے پس منظر میں مجھے اس عنوان پر تبصرہ کا کہا گیا تھا ، میں نے سارتر کی مثال کے علاوہ نواب اکبرخان بگٹی کے قتل کا واقعہ بیان کیا ، وہ یہ کہ نواب کے قتل کے ساتھ 33دیگر سرمچار بھی قتل کئے گئے، اور لاشیں کھلے میدان میں پڑی رہیں ، گرمی سے لاشوں کے گلنے سڑنے کے علاوہ جنگلی جانوروں اور پرندوں کا نوچنا بعید از قیاس نہیں ، پہاڑ پر دوربین کے زریعے ایسے سرمچار بھی یہ دلخراش نظارہ دیکھ رہے تھے، جنہوں نے ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کی انسرجنسی میں حصہ لیا تھا ، اب کبھی کل کلاں ان سرمچاروں میں سے کسی کو ، کسی جنگل یا ویرانے میں کوئی باوردی فوجی ملے، اس سرمچار کا ردعمل کیا ہوگا ؟ کیا یہ ردعمل انتہا پسندی یا دہشت گردی ہے ؟
دی بلوچستان پوسٹ : کیا پاکستانی ڈھانچے کے اندر بلوچ آزادی کیلئے دوسرے مہذب ممالک کے طرز پر ایک پر امن سیاسی جدوجہد ممکن ہوسکتی ہے یا اب یہاں مسلح جدجہد کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا؟
واجہ صورت خان مری : جہاں قومی آزادی اور انقلاب کا سوال پیدا ہوتا ہے ، وہ پاکستان ہو ، ایران ، برطانوی ( مہذب) کوئی ریاست یا قوم ، اسکا مہذب ہونا محال ہے۔ قابض کالونیلسٹ اپنے آپ کو اعلیٰ اور ارفع کہلاتا ہے۔ محکوم ، مقبوضہ کو پس ماندہ ، اجڈ ، گنوار اور غیر مہذب کی مایوسی کا شکار بنانے کیلئے کوشاں رہتا ہے ۔ جہاں تک قومی آزادی تحریک کا سوال ہے، یہ ہمہ جہت ہوتا ہے ۔ انڈین نیشنلسٹ رہنما آروبندو گھوس ، جنہوں نے1890کی دہائی میں انڈین آزادی کی جدوجہد شروع کی تھی ، گاندھی جی وغیرہ نے چالیس سال بعد مکمل طور پر انکی پیروی کی ۔تو آروبندوگھوس اور دیگر نے زور ایک
معروضی بالادست قومی تنظیم پر دیئے ہیں۔ البتہ عسکریت کو نہ تو آروبندو اور نہ ہی گاندھی جی نے رد کیا ۔ پاکستانی ریاستی ڈھانچہ غیر فطری اور جبری ہے، نبھایا جانا ممکن نہیں ۔
دی بلوچستان پوسٹ : نیشنل پارٹی کے بعد آج کل بی این پی مینگل ایک خاص رعایت کے تحت دوبارہ سیاسی سرگرمیوں میں مصروف نظر آتی ہے۔ آپ کی نظر میں بی این پی مینگل یا اختر مینگل کو کس لیئے تیار کیا جارہا ہے؟ کیا یہ نیشنل پارٹی کی طرح ایک اور کٹھ پتلی قوم پرست حکومت قائم کرنے کی کوششیں ہیں یا پھر کچھ اور مقاصد؟
واجہ صورت خان مری : اس میں شک نہیں ، نیشنل پارٹی اور بی این پی دیگر بلوچستان کی پارلیمانی سیاست کی پارٹیاں مفادات اور کاروباری حاشیہ بردار اور آلہ کار ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل ایک سندھی چینل کے انٹرویو میں مشاہد حسین نے اختر مینگل کو کہا تھا کہ برخودار آپ اور آپ کے بزرگوار والد نے پاکستان اسٹبلشمنٹ سے کچھ وعدے کئے تھے، آپ کو اقتدار میں لایا گیا، آپ لوگ وعدے پورا نہ کرسکے، نکالے گئے۔
ایک سینئر پولیس آفیسر کی کتاب میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان کا انٹرویو گذشتہ الیکشن سے قبل چھپا ، جس میں انہوں نے واضح اعتراف کیا کہ میں جانتا ہوں اسٹبلشمنٹ کو میری ضرورت ہے، عوامی خدمت کیلئے میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوں۔ قحبہ گری کی بنیاد خالص لین دین پر ہوتی ہے، لیکن غیر معمولی واقعات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ قحبہ گری سیاست کے غیر معمولی حادثات سے قطع نظر اختر مینگل کا آزمانا، غیر معمولی حادثہ ہی ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر مالک کی وفاداری ، بادی النظر میں پاکستان اسٹبلشمنٹ کے نزدیک برقرار ہے ، آج بھی سرکاری وی آئی پی توجہ برقرار ہے ، سرکاری رہائش گاہ اور مراعات سے انکاری نہیں ؟
دی بلوچستان پوسٹ :کسی بھی تحریک میں دانشور طبقے، شعراء اور فنکاروں کا ایک اہم کردار ہوتا ہے، بلوچ تحریک میں یہ کردار ناپید کیوں؟ کیا دانشور طبقہ اپنے ذمہ داریاں سمجھنے سے قاصر یا خوفزدہ ہے یا پھر یہ تحریک کی ایک ناکامی ہے کہ ان کی شمولیت ممکن نا بناسکی؟
واجہ صورت خان مری : علامہ اقبال کو جب ’’ سر Sir‘‘ کا خطاب انگریز سرکار نے دیا ، تو یہ مصرع زبان زد عام ہوگیا ،
سرکار کی دہلیز پر سر ہوگئے اقبال ‘‘روزگار کی مجبوریوں کے باوصف میر گل خان نصیر نے بلوچ اور بلوچ نیشنلزم کی آبیاری میں کوتاہی نہ کی، البتہ عمر کے آخری حصہ میں بلوچستان کے گورنر جنرل رحیم الدین خان سے قربت اور مبینہ مراعات سوالیہ نشان بتائے جاتے ہیں ۔
آج کا بلوچ دانشور اور لکھاری موقع کی تلاش سے انکاری نظر نہیں آتا ۔