واشنگٹن: گزشتہ روز “امریکن فرینڈز آف بلوچستان”نامی تنظیم کی جانب سے جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ایک کانفرس کا انعقاد کیا گیا، جس کا عنوان تھا “ان کہی کہانی: بلوچستان میں کیا ہورہا ہے؟” ۔
اس کانفرنس میں مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے، جن میں جارج ٹاون یونیورسٹی کےاسسٹنٹ پروفیسر کرسٹین فئیر اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ‘ٹی کمار” بھی شامل تھے۔ انکے علاوہ امان اللہ ناروئی اور نجیب خان بھی تقریب کا حصہ تھے۔
امیرکن فرینڈز آف بلوچستان کے بانی اور صدر احمر مستی خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، “میں یہاں ہمارے مشترکہ انسانیت سے اپیل کرنے آیا ہوں، بلوچ عوام کو چینی منصوبے سی پیک کی وجہ سے پاکستان کے ہاتھوں انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم کا سامنا ہے “۔
انھوں نے 1997 کی لیحی ترمیم کو لاگو کرنے کی درخواست کی، اس ترمیم کے تحت امریکہ ایسی کسی بھی غیر ملکی فوج کی فوجی امداد نہیں کر سکتا جو کسی لحاظ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوا ہو یا پھر انکی وجہ بنی ہو۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے طالب علم نجیب خان نے تقریب سے بات کرتے ہوئے اپنی روداد سنائی کہ کس طرح پاکستانی خفیہ اداروں نے اس پر جسمانی تشدد کیا تھا۔ انھوں نے پشتون و افغان اقوام سے مخاطب ہوکر کہا، “ہمیں بلوچستان کے ساتھ کھڑا رہنا ہے تا کہ وہ خودمختاری کی اپنی بنیادی حق کو حاصل کر سکیں”۔
تقریب میں شامل امریکہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایڈوکیسی ڈائیریکٹر، ٹی کمار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ،” پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہی ہیں مگر بلوچستان ان سب میں نمایاں ہے، بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ان علاقوں سے بھی زیادہ ہیں جہاں پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ بلوچستان کا کیس اسلیئے بھی مختلف ہے، کیونکہ یہاں بلوچوں کو قومیت کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے”۔
تقریب کا انعقاد کرنے والے “امیرکن فرینڈز آف بلوچستان” کے صدر احمر مستی خان نے اپنے فیس بک اکاونٹ پر پاکستانی خفیہ اداروں پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ہونے والے اس کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔