مذہبی شدت پسندی کی پرورش اور بڑھاوا دینے میں پاکستانی ریاست خود ملوث ہے، بی این ایم

181

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نےاپنے حالیہ بیان میں بلوچستان میں مذہبی شدت پسند گروہوں خصوصا داعش کی بڑھتی ہوئی کاررائیوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہیکہ ساری دنیا اس بات سے آگاہ ہے کہ مذہبی شدت پسندی کی پرورش اور بڑھاوا دینے میں پاکستانی ریاست خود ملوث ہے۔ طالبان مجاہدین سے لیکر حقانی گروپ کی تخلیق اور کردار سے ہر ایک واقف ہے۔ انہی گروہوں کے ذریعے خطے میں بد امنی پیدا کرکے پاکستان ساری دنیا کو بلیک میل کرتا رہاہے۔اور دوسری جانب ان گروہوں کو بلوچستان میں بلوچ قوم پرستی کی سوچ اور سیاست کو ختم کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ اپنے قبضے کو برقرار رکھ سکے۔

  بی این ایم کے مرکزی ترجمان نے کوئٹہ میں بی این پی کے ملک نوید دہوار کے قتل کو بلوچستان نیشنل پارٹی کی وفاق پرستی اور بے اثرکرسی کی سیاست کی لالچ کا نتیجہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ بی این پی کے معصوم کارکنوں کو احساس کرنا چاہیے کہ پاکستانی نظام میں رہ کر نام نہاد اور بے اختیار پارلیمنٹ میں حقوق کے حصول کی غلط پالیسیوں کا شکار ہوکر قربانی کا بکرا بننے سے بہتر ہے کہ وہ پاکستان سے آزادی کیلئے جد وجہد کا حصہ بنیں۔ انہوں نے مزید اپنے بیان میں کہا ہے کہ دوسری طرف کوئٹہ چاغی سیٹ پر الیکشن کی بھاگ دوڑ کیلئے نام نہاد قوم پرست اور مذہبی جماعتیں اتحاد کرکے پارلیمنٹ میں جاکر بلوچستان میں اسی فروغ کردہ مذہبی شدت پسندی سے انکار اور دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے پاکستانی ریاست کا زبان استعمال کرکے سب کچھ ٹھیک ہونے کا راگ الاپتے ہیں۔ اصل میں یہ انتہا پسندی کو فروغ دیکر بلوچستان کی روادارانہ ماحول کو پراگندہ کر رہے ہیں، جو ان کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ یہی مذہبی جماعتیں ایک طرف مساجد و مدرسوں کو سیاسی مقاصد و ووٹ کیلئے استعمال کرتے ہیں دوسری طرف یہیں سے پاکستانی مفادات کی حصول کی خاطرخود کش بمبار برامد کئے جاتے ہیں اور انکے اصل شکار بلوچ قوم کے دانشور، ٹیچر، ڈاکٹر، طلبا اور مخلص اور آزادی پسند کارکناں اور لیڈر ہوتے ہیں ۔ استاد صبا دشتیاری، زاہد آسکانی، پروفیسر عبدلرزاق سمیت کئی کارکن انہی دہشت گردوں کا شکار بنے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ نیشنل پارٹی ، بی این پی اور ملاؤں کا آپس میں رسہ کشی ذاتی مفادات حاصل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کے کرپشن کی داستانیں نئی نہیں ہیں۔ اس کرپشن کے دلدل میں معصوم کارکناں ایندھن کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔