سی پیک منصوبے کی اہم شاہراہ سیلابی ریلے کی نظر

289

سی پیک منصوبے میں شامل خضدار سے گزرنے والی اہم شاہراہ(ایم 8) سیلابی ریلے میں بہہ گئی، ونگو تا کھوڑی شاہراہ کو بارش کے چند ہی قطروں نے تنکے کی طرح بہا کر این ایچ اے اور بڑے بڑے حکومتی دعووں پر پانی پھیر دیا، یوں توہمیشہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بلوچستان سے منسلک منصوبے طوالت اور غیر تکمیلی کا شکار ہوتے ہیں، مزکورہ شاہراہ بھی پاکستانی تاریخ میں طویل دورانیہ میں بننے والی شاہراہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق گوادر ٹو رتوڈیروہ شاہراہ سی پیک کاایک اہم حصہ ہے اور بلوچستان کےدوسرے بڑے شہر خضدار کے علاقے کھوڑی تا ونگو شاہراہ سیکشن اسی کا حصہ ہے جس کا آغاز 14سال قبل یعنی 2003میں شروع ہوا۔ 14سال کی طویل مدت اور حکومتی دعووں کے مطابق اربوں روپے کے پراجیکٹ بارش کے چند بوندوں میں ہی کاغز کے کشتی کی مانند بہہ گئے ۔ اسے این ایچ اے آفیسران کی مجرمانہ غفلت یا لاڈلے ٹھیکداروں پر وزیروں اور مشیروں کی دست شفقت کا نام دیں جس نے اس بین الاقوامی منصوبے کو نہ صرف ناکام بنا دیا بلکہ حکومت نے ترقی سے متعلق جو وعدے اور دعوے عوام سے کئے تھے وہ بھی غیر اعتمادی کے شکار ہوگئے کیونکہ پاکستانی حکومت سی پیک کو ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت دیتی ہے اور یہ پوری شاہراہ سی پیک منصوبے میں انتہائی اہمیت رکھتی ہے جو اپنی پہلی بارش کو بهی جھیل نہ سکی۔

بلوچستان کے عوام کو حیرانگی اس بات سے ہے کہ ایسے بڑے منصوبے بلوچستان میں ہی  آکر کیوں ڈھیلے پڑجاتے ہیں ۔پورے ملک میں معیاری کام اور بہتر منصوبہ سازی کےتحت تمام منصوبے  پایاء تکمیل کو پہنچتے ہیں لیکن جیسے ہی منصوبہ بلوچستان میں پہنچتا ہے تو وہ منصوبہ ہی نہیں رہتا ،معیار ومیرٹ دور دور تک نظر نہیں آتے جس کی ایک واضح مثال مزکورہ شاہراہ ہے۔ عوام گزشتہ چودہ سالوں سےترقی کی امید میں اس اہم شاہراہ کے تیار ہونے کے انتظار میں ہے، تیار ہونا درکنار بلکہ بننے والی روڈ ہی سرے سے اکھڑ گئی، پل ٹوٹ کر پانی میں بہہ گئے، اس حیران کن کرپشن اور غفلت پر شہریوں اور ٹرانسپورٹ برادری نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت اور دیگر اختیار دار ادارے اس طرح کی غفلت اور ناقص کار کردگی کا دوسرے صوبوں میں تو فوری طور پر نوٹس لیتے ہیں لیکن اربوں روپے کے اس منصوبے پر کسی بھی طرح توجہ مرکوز نہیں کیا جارہاہے ۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بین الاقوامی شاہراہ کی ناقص منصوبہ بندی کا از خود نوٹس لیکر تمام منصوبہ سازوں کو
انصاف کے کٹھرے میں لائیں۔

بلوچستان ہمیشہ سے محرومیوں میں رہا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ ڈیڈھ دہائی سے زیادہ عرصے سے بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے جسے وہاں کے سیاسی حلقے آزادی کی تحریک بتاتے ہیں۔ وہ تمام ایسے ترقیاتی منصوبوں اور پراجیکٹس کے خلاف ہیں، ان کا ماننا ہے کہ یہ تمام منصوبے بلوچستان اور اس کی عوام کے لیئے نہ شروع سے تھے نہ ہونگےبلکہ یہ صرف پنجاب کی ترقی کے لیئے بلوچستان کے وسائل لوٹے جا رہے ہیں۔ اسی سوچ کی بنیاد پر کئی مسلح تنظیمیں بلوچستان میں جاری مختلف منصوبوں سمیت سی پیک سے منسلک مزدوروں، مشینری اور چینی انجینیئرز پر وقتاۤ فوقتاۤ حملے کرتی رہی ہیں، دوسری جانب پاکستانی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ سی پیک سے بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی آئے گی اور تمام محرومیاں اور شکایتیں دور کی جایئںگی۔