دہشت گردوں کی حمایت پر پاکستان کو خطرناک نتائج کا سامنا ہوگا: امریکہ

391

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت پاکستان نے ملک میں دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے فنڈز جمع کرنے کے خلاف مناسب اقدامات نہیں کیے تو اسے خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

’دہشت گردی پر ملکی رپورٹ برائے 2016‘ کے عنوان سے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں اہم اتحادی قرار دیا جبکہ پاکستان کو ایسے ممالک کی فہرست میں بھی شمار کیا گیا جہاں پر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے یہ رپورٹ 19 جولائی کو کانگریس میں پیش کی جو اس محکمہ کی جانب سے دنیا بھر میں دہشت گردی اور اس کی روک تھام کے حوالے سے سالانہ جائزے کا حصہ ہے۔

کانگریس کو موصول ہونے والی اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی جو مسلسل جاری ہے جبکہ یہ بھی الزام لگایا کہ اسلام آباد سرحد پار دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے گروپوں کو روکنے میں ناکام رہا۔

دنیا بھر میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے رپورٹ کے ایک علیحدہ باب میں بتایا گیا کہ پاکستان منی لانڈرنگ کے حوالے سے کام کرنے والے ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کا حصہ ہے جو فائنینشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا ذیلی ادارہ ہے۔

ایف اے ٹی ایف ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جو 1989ء میں قائم ہوا جس کا مقصد منی لانڈرنگ کے خلاف لڑائی کے حوالے سے پالیسی مرتب کرنا ہے، تاہم 2001 میں اس ادارے کے دائرہ کار کو مزید بڑھاتے ہوئے اسے دہشت گردی کے لیے جمع کی جانے والی رقوم پر کارروائی کرنے کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی۔

امریکی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کو ’انسداد دہشت گردی ایکٹ‘ کے ذریعے ایک مجرمانہ فعل قرار دے دیا لیکن پاکستان میں تحقیقات میں عدم وسائل اور کمزور عدالتی نظام کی وجہ سے اب تک بڑی تعداد میں اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔

امریکی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2015 میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے مناسب اقدامات نہ کرنے کی بنا پر اپنے نظر ثانی کے عمل سے خارج کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف کے ممبر ممالک کی جانب سے ایسا ملک جو اپنی حدود میں دہشت گردوں کی مالی معاونت سد باب کرکے ممبر ممالک کو مطمئن کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اسے بھی دہشت گردی کا سہولت کار ملک قرار دے دیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گذشتہ سال اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف کے ممبر ممالک کے درمیان پاکستان کے حوالے سے انتہا پسند تنظیم داعش اور القاعدہ کے خلاف اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کے اطلاق میں فرق کی وجہ سے تشویش پائی گئی تھی۔

امریکی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف کارروائی کا قانون موجود ہونے کے باوجود لشکر جھنگوی اور اس کی ذیلی تنظیمیں گذشہ برس فنڈز جمع کرنے میں مصروف رہیں جبکہ پاکستان کی جانب سے ان تنظیموں پر میڈیا کوریج کی پابندیاں بھی انہیں عطیات جمع کرنے سے نہیں روک سکیں۔

تاہم رپورٹ میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ پاکستان نے مارچ 2015 سے مارچ 2016 تک ملک میں موجود دہشت گرد تنظیموں اور دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے بینک اکاؤنٹس کو بڑی تعداد میں منجمد کیا۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور ملک کے خفیہ اداروں کے زیر نگرانی چلائے جانے والے دہشت گردوں کی مالی امداد کی تحقیقات کرنے والے قومی ادارے نے دہشت گردوں کے ملکی اور بین الاقوامی بینک اکاؤنٹس کے درمیان رقوم کی لین دین کا پتہ لگایا۔

اس کے علاوہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) نے بھی تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے بھر پور تعاون کیا۔

اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کی مدد سے پاکستان میں غیر لائسنس شدہ ہنڈی اور حوالا کے نظام کے استعمال کو غیر قانونی قرار دیا گیا لیکن امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہنڈی اور حوالا کے نظام کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے باوجود پاکستان میں رقوم کی منتقلی کا غیر لائسنس شدہ نظام رائج ہے۔