امریکہ کا پاکستان کی بیرونی امداد پر سخت شرائط لاگو کرنے کی تیاری

222

امریکی سٹیٹ اور بیرونی آپریشنز کمیٹی نے ایک بل پاس کیا ہے جو کہ، پاکستان کے لیئے بیرونی امداد پر سخت شرائط لاگو کریگی۔
کل سٹیٹ کے ہاوس آف اپروپریشن سب کمیٹی، بیرونی آپریشنز، فارن آپریشنز اپروپریشن اور دوسرے متعلقہ پروگرامز کو سالانہ فسکل کے طور پر غور کیا۔ بل کو کمیٹی کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔
سب کمیٹی کے چئیرمین “ہال راجرز” جو کے ایک ری پبلکن ہیں، انھوں نے پینل کے ممبرز سے درخواست کی کہ بل کو سپورٹ کریں۔
راجرز نے کہا کہ، ” یہ بل متوزان فسکل زمہ داریوں، امریکہ کی سفارتی تعلقات اور غیر ملکی مدد کے بارے میں ہے”۔
بل جو کہ کمیٹی کی ویب سائٹ پر 12 جولائی 2017 کو شائع ہوئی تھی، میں لکھا ہے کہ پاکستان کے لیئے کسی بھی عسکری یا شہری امداد پر سخت نگرانی کی جائے۔
بل کے مطابق، “فارن ملٹری فائینانسنگ پروگرام” کے تحت پاکستان کو کوئی بھی امداد نہیں دی جائے جب تک کہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ اجازت نہ دے، وہ بھی اس شرط پر کہ پاکستان دوسرے شرائط پر پورا اتر رہا ہے۔
ان شرائط میں سے کچھ یوں ہیں کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ ملکرحقانی نیٹورک، کوئٹہ شورہ، لشکر طیبہ، جیش محمد، القائدہ اور دوسرے گروہ جو ملک کے اندر کام کر رہے ہیں کے خلاف لڑے گی۔ پاکستان کو یہ بھی ثابت کرنا پڑیگا کہ وہ اب ایسے گروہوں کی مدد نہیں کریگا جو پاکستان میں ٹھکانہ بنا کر ہمسایہ ممالک کو نشانہ بناتی ہیں۔
افغانستان کا ماننا ہے کہ ، پاکستان مختلف مذہبی شدد پسند گروہوں کو پناہ دیئے ہوئے ہے جو کے سرحد پار جاکر افغانستان فورسز اور اتحادی فورسز کو نشانہ بناتی ہیں۔
بل کے مطابق، پاکستان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ امریکہ کے خلاف کسی کاروائی کو سپورٹ نہیں کرتا اور نہ ہی افغانستان میں اتحادیوں پر حملہ کرنے والے دہشتگردوں کو پناہ دے رہا ہے۔ پاکستانی فوج کو غیر قانونی طور پر سیاسی اور عدالتی معاملات میں مداخلت بند کرنا ہوگی۔ پاکستان کو کسی بھی قسم کے مدارس جو دہشتگردی کو فروغ دے رہے ہوں، کو فوراَ بند کرنا ہوگی۔
بل کے اندر پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق بھی اہم مطالبہ رکھا گیا ہے۔ پاکستان کو جوہری مواد اور ماہرین کو دوسروں کے ہاتھ لگنے سے روکنا ہوگا۔
ماہرین نے دا بلوچستان پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: ” امریکہ کے اس مطالبے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے پاس اس بابت معلومات ہیں کہ پاکستان جوہری مواد دوسرے ممالک تک پہنچارہا ہے”۔
مزید مطالبہ کیا گیا کہ، پاکستان کو امریکیوں کو ویزہ دینے میں دیری سے کام لینا بند کرنا چاہیے تا کہ دہشتگردی کے خلاف سرگرم لوگ آسانی سے اپنا کام کر سکیں اور وہاں کام پر نظر رکھ سکیں۔ پاکستان اس سے پہلے ویزہ کے اوقات میں جان بوجھ کر دیری پیدا کرتے ہوئے پایا گیا ہے۔
پاکستان کو اس بات کی بھی یقین دہانی کرانا پڑیگی کہ وہ بین القوامی انسانی حقوق کے اداروں کو قیدیوں اور ملک کے اندر پیدا ہونے والے مہاجرین تک رسائی دیگی۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے اس سے قبل بھی پاکستان پر الزائم عائد کیا تھا کہ پاکستانی فوج نے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ قیدیوں تک ہماری رسائی روک دی ہے اور نا ہی ہمیں بلوچستان میں آپریشنوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مہاجرین تک امداد پہنچانے کی اجازت ملی ہے۔
خیال رہے کہ،ایک ٹیکسس ری پبلکن “ٹیڈ پو” نے بھی پاکستان پر دباو بڑھانے کے لیئے کانگریس میں دو بل پیش کیئے ہیں۔ پہلے بل میں پاکستان کو دہشگردی کی امداد کرنے والے ملک کے طور پر دیکھا جائے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور دوسرے میں پاکستان کو “نان نیٹو الائنس” کی حیثیت کو بھی ختم کیئے جانے کا کہا گیا ہے۔
ٹیڈ پو فارن افئیر کمیٹی کے ممبر ہیں اور وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ پاکستان، امریکہ کے ساتھ دوغلا پالیسی اپنا رہا ہے۔