بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک دہائی کے زائد عرصے سے آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے گذشتہ روز کراچی پریس کلب کے سامنے احتاجی مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرے کی قیادت وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ کررہے تھے جو کوئٹہ اور کراچی پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کیخلاف مسلسل احتجاج کرتے رہے ہیں جبکہ انہوں نے کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد تک جبری گمشدگیوں کے خلاف لانگ مارچ بھی کیا۔
کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرے میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے شرکت کی جنہوں نے لاپتہ افراد کے تصاویر اٹھا رکھی تھی جبکہ عوامی ورکر پارٹی کے رہنماوں، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماوں و کارکنان سمیت ملیر، لیاری، چاکی واڑا، حب سے لوگوں نے احتجاج میں شرکت کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقعے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مختلف حکومتوں میں لاپتہ افراد کے بازیاب ہونے کیساتھ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے، موجود حکومت میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں ایک شخص رہا ہوتا ہے تو مزید دس افراد کو لاپتہ کیا جاتا ہے جبکہ اب بلوچ خواتین کو لاپتہ کرنے میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے قائم کمیشن کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ مذکورہ کمیشن خفیہ اداروں کے ایما پر کاروائی کرتی ہے، کمیشن کے اختیارات میں نہیں کہ وہ کسی شخص کو بازیاب کرسکیں یہ محض وقت گزاری کررہی ہے۔
ماما قدیر کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے جنہیں بغیر ڈی این اے کے لاوارث قرار دیکر دفنا دیا جاتا ہے علاوہ ازیں اجتماعی قبروں کے حوالے سے بھی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
مظاہرے میں لاپتہ نسیم بلوچ کی منگیتر حانی گل بلوچ بھی شریک تھی جن کا کہنا تھا کہ نسیم بلوچ کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے لاپتہ کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے اگر نسیم بلوچ پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے لیکن اس طرح لاپتہ نہیں رکھا جائے۔
حانی گل کا کہنا تھا کہ نسیم بلوچ کے گمشدگی کیخلاف نو مہینے بعد ایف آئی آر ہوسکی اور اس دوران اسے انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یاد رہے گذشتہ سال حانی گل بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں انکشاف کیا تھا کہ انہیں اور ان کے منگیتر کے ہمراہ پانچ مہینے قبل پاکستانی خفیہ اداروں نے جبری طور پر گمشدگی کا شکار بنایا تھا جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
حانی گل کے مطابق انہیں تین مہینے آئی ایس آئی اہلکاروں نے تین مہینے جبری طور پر لاپتہ کرنے کے بعد رہا کردیا جبکہ ان کی منگیتر محمد نسیم تاحال لاپتہ ہے۔
بلوچ نوجوانوں کی بلوچستان کے علاوہ بیرون ممالک بھی جبری گمشدگی کے واقعات پیش آئے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ 26 دسمبر 2018 سے دبئی سے لاپتہ ہے۔
ان کے لواحقین کا کہنا ہے کہ راشد حسین کو متحدہ عرب امارات کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کیا اور نصف سال تک امارات میں نامعلوم مقام پر رکھ کر 22 جون 2019 کو غیر قانونی طور پر پاکستان منتقل کیا گیا جہاں وہ پھر سے نامعلوم مقام پر منتقل کردیئے گئے جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔
مظاہرے میں لاپتہ بختیار محمد علی کی ہمشیرہ نے بھی شرکت کی جن کا کہنا ہے کہ بختیار محمد علی کو 13 فروری 2015 کو پنجگور کے قریب پیر عمر جان کے مقام سے ان کے آٹھ ساتھیوں کے ہمراہ حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا بعدازاں ان کے ساتھی رہا ہوگئے لیکن بختیار تاحال لاپتہ ہے۔
بختیار محمد علی کے بہن کا کہنا تھا ان کی جبری گمشدگی سے ہمارے گھر والے انتہائی کرب میں مبتلا ہے لہٰذا اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔
بلوچستان میں جہاں سالوں سے لاپتہ افراد بازیاب ہورہے ہیں وہی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ لواحقین کی جانب سے کوئٹہ، کراچی سمیت سیاسی و سماجی جماعتوں کی جانب سے بیرون ممالک بھی تسلسل کیساتھ احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔
گذشتہ روز بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر لاپتہ افراد کے حوالے سے کمپئین بھی چلائی گئی جس میں سیاسی، سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت طلبا، صحافیوں اور دیگر افراد نے حصہ لیا۔