اسلم بلوچ ’’ایک بلوچ جنرل‘‘ – ٹی بی پی خصوصی رپورٹ

3602

اسلم بلوچ

” ایک بلوچ جنرل”

دی بلوچستان پوسٹ خصوصی رپورٹ

بہزاد دیدگ بلوچ

گذشتہ اکہتر سالوں سے بلوچستان میں جاری آزادی کی تحریک عروج و زوال، تیزی و مندی، کامیابیوں و ناکامیوں کے مختلف مدارج سے گذرتے ہوئے آج تک جاری ہے۔ اس طویل اور خونریز آزادی کی تحریک میں بہت سے اہم دیوہیکل کردار نظر آتے ہیں، لیکن ایک سحر انگیز کردار نے بلوچ سماج و تحریک کے اندر اساطیری حیثیت حاصل کرلی ہے۔

یہ شخصیت کسی مہم جوئیانہ افسانے کے مرکزی کردار کے طرح متوسط طبقے سے گمنامی کے پردے کے پیچھے سے اچانک نمودار ہوتا ہے، اور پھر اسکے شجاعت کے قصے زبان زد عام ہوجاتے ہیں اور وہ گھر گھر نام ہوجاتا ہے۔ اپنے حلقہ احباب میں وہ اسپارٹیکس کی طرح باپ کا درجہ رکھنے لگتا ہے اور دشمنوں میں ایک ایسی خوف کی علامت، جو اچانک اپنے لشکر کے ساتھ نمودار ہوکر سب تہس نہس کردیتا ہے۔ یہ کردار حضرت ابراہیم کی طرح اپنے بیٹے کو قربان کرنے کیلئے خود چنتا ہے، اور قربان گاہ پہنچا کر قربان کرجاتا ہے۔ وہ کئی بار اپنے دشمن کے گھیرے میں آتا ہے، گولیوں اور توپوں کی بوچھاڑ میں گِھر جاتا ہے، اسکی موت کا پختہ یقین کرکے اسکا دشمن سکھ کا سانس لیتا ہے لیکن وہ پھر کسی اور جگہ سے مزید طاقتور ہوکر نمودار ہوتا ہے، گولیاں اسکی جسم میں پیوست ہوتی ہیں لیکن موت اسے چھوتا نہیں۔ وہ ایسی روایتیں قائم کرتا ہے، جنکی پہلے نظیر نہیں ملتی۔ وہ ایک ہی وقت میں ایک اعلیٰ پائے کے سپہ سالار، مبلغ، استاد اور مصنف کا کردار ادا کرتا ہے، اور وہ یہ سب کچھ صرف چوالیس سال کی عمر تک پہنچنے تک کرجاتا ہے۔ یہ کردار نا ایک فوک لور ہے اور نا ہی اساطیر بلکہ بلوچستان کی آزادی کی تحریک کے حقیقی کردار اسلم بلوچ ہیں، جسے بلوچ پیر و ورنا جنگجو و سیاسی کارکن احترام سے “استاد” کہہ کر پکارتے ہیں، اور مرنے کے بعد انہیں بلوچستان کی جاری آزادی کی تحریک کے اعلیٰ ترین اعزاز “جنرل” سے نوازا جاتا ہے۔

25 دسمبر 2018 کو اسلم بلوچ اپنے پانچ ساتھیوں کمانڈر رحیم مری سگار، تاج محمد مری، اختر شاہوانی، فرید بلوچ اور اور صادق بلوچ کے ہمراہ ایک خود کش حملے کا نشانہ بنے اور ساتھیوں سمیت جانبر نا ہوسکے۔ لیکن انکی شخصیت کا سحر اور کردار کے اثرات آج تک گہرائی کے ساتھ بلوچ سماج خاص طور پر بلوچستان کی آزادی کی تحریک پر محسوس کی جاسکتی ہیں۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ یہ جاننے کیلئے دی بلوچستان پوسٹ نے اسلم بلوچ کے قریبی رفقاء سے گفتگو کی۔

سنہ 1975 کو کوئٹہ کے علاقے ٹین ٹاون حاجی غیبی روڈ پر رحیم داد دہوار کے گھر میں آنکھ کھولنے والے اسلم بلوچ نے ابتدائی تعلیم اسپیشل ہائی اسکول کوئٹہ سے حاصل کی۔ وہ بلوچستان کی آزادی کی تحریک سے باقاعدہ طور پر سنہ 1994 میں اس وقت جڑگئے، جب مرحوم سردارخیربخش مری نے جلاوطنی ختم کرکے بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں رہائش اختیار کی اور وہاں حق توار کے نام سے ایک اسٹڈی سرکل کا آغاز کیا۔ یہ اسٹڈی سرکل جہاں سماج اور سیاست خاص موضوع ہوتے تھے، نوجوانوں کی خاص توجہ کا مرکز بن گئی۔ اسلم بلوچ بھی ان نوجوانوں میں سے ایک تھا، جو اس بوڑھے مارکسسٹ بلوچ سردار کو سننے آتا تھا۔ یہاں سے وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور ان اسٹڈی سرکلوں کا حصہ بننے کے بعد اسلم بلوچ باقاعدہ طور پر 1995 میں چند دوستوں کے ہمراہ بلوچ لبریشن آرمی کی بنیاد ڈالنے اور اسے بلوچستان بھر میں پھیلانے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ پانچ سالوں تک زیر زمین بلوچ لبریشن آرمی کو منظم کرنے کے بعد سنہ 2000 میں بلوچ، بی ایل اے کے نام سے باقاعدہ مسلح جدوجہد شروع کردیتے ہیں، جو تاحال جاری ہے۔ اسلم بلوچ ابتداء میں بلوچ لبریشن آرمی کے سب سے بڑے بیس کیمپ مانے جانے والے بولان کیمپ کے کمانڈر بنتے ہیں، جس کے بعد وہ بی ایل اے کے تمام جنگی امور کے کمانڈر مانے جاتے ہیں اور باخبر ذرائع کے مطابق 25 دسمبر 2018 کو ایک خود کش حملے میں پانچ ساتھیوں کے ہمراہ جانبحق ہونے سے تقریباً ڈیڑھ سال قبل سنہ 2017 میں وہ بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ اعلیٰ یا کمانڈر انچیف بن جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے 

بی ایل اے کے سینئر کمانڈر اور بلوچ رہنما اسلم بلوچ کیساتھ خصوصی نشست

جس وقت بلوچ لبریشن آرمی بلوچستان بھر میں مسلح کاروائیاں شروع کرچکی تھی، اس وقت بلوچستان لبریشن فرنٹ کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ ایک طالب علم رہنما تھے، جنہوں نے بلوچ آزادی پسند طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی بنیاد رکھی۔ جس کی پاداش میں انہیں فورسز نے اغواء کرکے مہینوں شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد منظرعام پر نیم مردہ حالت میں لایا۔ جیل سے ضمانت پر رہائی کے بعد اللہ نظر بلوچ نے مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔

ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ بھی اسلم بلوچ کو استاد کے نام سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ “جنرل اسلم میرے حقیقی معنوں میں استاد تھے، میں ان کا شاگرد رہ چکا ہوں، انہوں نے مجھے جنگی تربیت دی تھی۔”

 

اللہ نظر بلوچ ان چند ایک لوگوں میں سے ایک ہیں، جو اسلم بلوچ کو انتہائی قریب سے اور طویل عرصے سے جانتے تھے، اسلم بلوچ کی پہلی برسی پر دی بلوچستان پوسٹ نے ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ سے اسلم بلوچ کے بابت گفتگو کی اور انکے کردار کے بارے میں دریافت کیا تو انکا کہنا تھا کہ “میں جنرل اسلم بلوچ کو بہت قریب سے جانتا تھا، جنگی حوالے سے وہ ایک اعلیٰ پائے کے منصوبہ ساز تھے، میدان جنگ میں دشمن کے خلاف جس طرح وہ دوستوں کو لڑاتا تھا، اسکا کوئی ثانی نہیں۔ وہ ایک نمایاں اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے، بلوچوں کا قبائلی معاشرہ ہو یا شہری زندگی یا باقی امور وہ بہت جلد ہی خود کو حالات میں ڈھال دیتے تھے۔ جنرل اسلم جیسے ساتھی اور رہنما کا بچھڑنا یقیناً ایک تاریخی المیہ ہے، ہمیں انکی مزید ضرورت تھی لیکن انقلاب اپنے بچوں کو خود ہی کھاجاتی ہے۔ مجموعی بلوچ تحریک پر انکے شہادت سے منفی اثرات نہیں پڑیں گے کیونکہ انکی شہادت نے بلوچ قوم، خاص طور پر بلوچ مزاحمت کاروں اور بلوچ سیاسی کارکنوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا ہے اور انہیں مزید متحرک کیا ہے۔ جنرل کا نظریہ بہت مضبوط نظریہ ہے، اور یہ نظریہ ہر اس بلوچ کا نظریہ ہے جو بلوچستان کی آزادی کو اپنا نصب العین سمجھتا ہے، اور جنرل اسلم کی شہادت نے ان فرزندوں کے کردار سازی پر بہت مثبت اثرات ڈالے ہیں۔”

اسلم بلوچ کو بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں اسلیئے بھی ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے کہ وہ باقی بلوچ رہنماؤں کے برعکس نا کوئی بڑا قبائلی پس منظر رکھتے تھے اور نا ہی سیاسی، لیکن انہوں نے محض اپنی قابلیت، محنت اور مستقل مزاجی سے ایک سپاہی سے “جنرل” تک کا سفر طے کیا۔ شاید اسی لیئے بی ایل اے کے اندرونی حلقوں میں ایک اعلیٰ کمانڈر ہونے کے باوجود، انہوں نے ایک نئی بحث و تحریک شروع کردی، جس کا مطمع نظر یہ تھا کہ تنظیم کو مکمل اداراجاتی و جمہوری ساخت میں ڈھالا جائے اور اختیار و سربراہی کا معیار قبائلی پس منظر کے بجائے قابلیت ہو۔ جو بی ایل اے کے اندر اختلافات کا باعث رہی، جو بالآخر تنظیم کے ایک قدامت پسند حلقے کے علیحدگی، از سر نو ادارہ سازی اور اسلم بلوچ کی سربراہی پر منتج ہوئی۔

اسلم بلوچ نے ورثے میں ایک منتشر لشکر نہیں چھوڑا، بلکہ انہوں نے ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں ہی وہ ادارے قائم کرلیئے، جو انکا خواب تھا، اسلیئے روایات کے برعکس انکے جانے کے بعد بی ایل اے کی سربراہی نا انکے خاندان کو منتقل ہوئی نا ہی قبیلے کو بلکہ پہلی بار جمہوری انداز میں قیادت تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کو منتقل ہوگئی اور ایک سابق طالب علم رہنما بشیر زیب بلوچ بی ایل اے کے سربراہ بنے۔

بلوچستان یونیورسٹی کے سابق طالبعلم اور بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او آزاد کے دو دورانیوں تک چیئرپرسن رہنے والے بشیر زیب بلوچ کہتے ہیں کہ “استاد اسلم بلوچ صرف میرے ہی استاد نہیں تھے بلکہ وہ ہر بلوچ جہدکار کے استاد ہیں، اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچ جنگ آزادی کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں انکا مرکزی کردار تھا۔”

دی بلوچستان پوسٹ نے بی ایل اے کے موجودہ سربراہ بشیر زیب بلوچ سے اسلم بلوچ کے برسی کے موقع پر رابطہ کیا اور ان سے Image result for Basheer zebدریافت کی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آج تک اسلم بلوچ کا ذکر بلوچ تحریک میں ایک اساطیری کردار کے طور پر ہوتا ہے تو انکا کہنا تھا کہ “جنرل استاد اسلم بلوچ، جن اوصاف کے مالک تھے اور انکا جتنا بڑا کردار رہا ہے، انہوں نے اس سفر میں جتنے مصائب کا سامنا کیا ہے، میں سمجھتا ہوں ابتک سب لوگوں کو مکمل ادراک بھی نہیں ہے۔ شاید آنے والے وقت میں تاریخ و مورخ انکے دیو ہیکل شخصیت کا مکمل احاطہ کرپائے گا۔ استاد اسلم اپنے دور سے بہت آگے تھا۔ جنرل گیاپ، ہوچی منہ، چی گویرا وغیرہ جن معاشروں میں پیدا ہوئے اور جب انقلابات کا حصہ بنے، وہاں معاشرے انقلاب کیلئے تیار تھے، لیکن جنرل اسلم شاید وقت سے پہلے پیدا ہوئے، وہ صرف آٹھ ساتھیوں کے ہمراہ تھے اور معاشرہ ایک تحریک کیلئے تیار نہیں تھا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر انکی طرح استاد اسلم بھی انقلاب کیلئے پہلے سے ہی ہموار ایک معاشرے میں پیدا ہوتے تو وہ ان متذکرہ شخصیات سے بھی کئی گنا زیادہ جانے مانے عالمگیر شخصیت بن جاتے۔ وہ بلوچ سماج میں ایک بہادری کے علامت بن گئے ہیں، وہ جدید بلوچ گوریلہ وارفیئر کے بانی ہیں۔ جیسے جیسے تاریخ کا پہیہ آگے حرکت کرے گا تو نسل نو درست احاطہ کرپائے گی کہ آج جو تبیدلیاں اسلم نے لائیں، جو چیزیں انہوں نے متعارف کئیں، وہ کیسے تاریخ کا دھارہ بدل دیں گی، اور پھر جنرل اسلم کے کردار کے ساتھ شاید مکمل انصاف ہوپائے گا۔”

کیا بلوچ لبریشن آرمی کو انکے جانے سے نقصان اٹھانا پڑا؟ اس سوال کے جواب میں بی ایل اے کے سربراہ کہتے ہیں کہ “اگر میں اپنا ذاتی طور پر کہوں تو انکی شہادت سے بڑی شاید زندگی میں مجھے اور کوئی تکلیف نہیں ملی ہے، انکے جانے سے ایک دوست، ایک استاد، ایک سائے کی کمی ضرور رہیگی لیکن تنظیم یا قوم کو ہرگز نقصان نہیں ہوا کیونکہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں، انہوں نے ہماری تربیت اور تنظیمی اداراجاتی ساخت کو اس طرح ڈھال دیا تھا کہ شخصیت چاہے جتنی بھی دیو قامت ہوں، اسکے جانے سے تنظیم میں خلاء پیدا نا ہو اور تحریک اسی طرح فوراً خلاء پر کرکے رواں دواں رہے۔ اور میں سمجھتا ہوں یہ بھی انکے کارناموں میں سے ایک کارنامہ ہے کہ اتنا اہم کردار ہونے کہ باوجود انہوں نے اپنی ذات کو تنظیمی ساخت پر اتنا حاوی ہونے نا دیا کہ انکا خلاء اتنا بڑا ہوجائے کہ تنظیم کو ہی نقصان پہنچے۔ وہ بہت دور اندیش تھے۔ استاد اسلم کی زندگی نوجوانوں کیلئے حیاتِ مصدقہ کا استعارہ بن چکا ہے اور انکی شہادت سب کیلئے ایک مثال اور ایک نئے جوش کا سبب بن گیا۔”

بلوچ راجی آجوئی سنگر ایک بلوچ اتحاد ہے، جس کا باقاعدہ اعلان 10 نومبر 2018 کو ہوا تھا، جس میں چار بلوچ مزاحمتی تنظیمیں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بلوچ ریپبلکن گارڈز شامل ہیں۔ اس اتحاد کو بلوچ تحریک میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلم بلوچ کو اللہ نظر بلوچ کے ہمراہ اس اتحاد کو قائم کرنے کا مرکزی کردار سمجھا جاتا ہے۔

گلزار امام بی آر اے کے سربراہ ہیں، جو اس اتحاد میں شامل ہیں۔ دی بلوچستان پوسٹ نے بلوچ ریپبلکن آرمی کے سربراہ سے اسلم بلوچ کے بابت انکی رائے جانی تو انکا کہنا تھا کہ “جنرل اسلم بلوچ سے میرا نزدیک کا واسطہ رہا ہے، وہ ایک انتہائی معاملہ فہم انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین جنگی کمانڈر اور دوراندیش انسان تھے، مجھے استاد کے کردار نے بے حد متاثر کیا، وہ ہمیشہ سب کو ساتھ لیکر چلنے کیلئے پرعزم رہتے تھے۔ گوکہ استاد آج جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے ہیں لیکن انہوں نے مقصد کو آگے لیجانے کیلئے ہمیں ایک تیار روڑ میپ بناکر دیا ہے۔ “براس” کی صورت میں استاد کا دیا ہوا روڈ میپ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اگر ہم نے براس جیسے اتحاد کو کمزورکر دیا تو پھر میں کہہ سکتا ہوں کہ استاد کی شہادت سے بلوچ قومی تحریک کو نقصان ہوا، اگر ہم استاد کے طریقہ کار اور روڈ میپ پر کامیابی سے چلیں گے تو پھر استاد کا سوچ و فکر آزادی تک ہمارے ساتھ ہے۔”

اسلم بلوچ گوکہ ایک آزادی پسند قوم پرست تھے اور ایک مزاحمتی تحریک کے بانی تھے، لیکن وہ فسطائیت کے سخت خلاف تھے، وہ مذہبی شدت پسندی کے بھی مخالف تھے، اسی لیئے کھلم کھلا شیعہ زائرین کے قتل کے خلاف اپنا موقف دیتے تھے۔ وہ جنگی اصولوں کے سخت پابند تھے۔ عورتوں، بچوں، بیماروں کو ہر طرح جنگ کے نقصانات سے بچانے کی کوشش کرتے۔ اسی وجہ سے خطے کے باقی مظلوم اقوام کے ساتھ انکے گہرے مراسم قائم ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے 

بی آر اے کے سینئر رہنما گلزار امام بلوچ کے ساتھ ایک خصوصی نشست

سندھو دیش ریوولیوشنری آرمی سندھ اور سندھی قوم کی آزادی کیلئے عرصہ دراز سے مسلح مزاحمت کررہی ہے۔ صوفی شاہ عنایت ایس آر اے کے کمانڈر ہیں اور اسلم بلوچ کے قریبی رفیق بھی رہے ہیں۔ اسلم بلوچ کے بارے میں انکا کہنا ہے کہ “شہید محترم استاد اسلم بلوچ سے میرا 2002 سے لیکر انکے شہادت کے دن تک فکری، نظریاتی اور مزاحمتی حوالے سے ایک اٹوٹ رشتہ رہا ہے۔ اس سارے عرصے کو اگر میں مختصر طور پر بیان کروں تو، استاد ذاتی حوالے سے مہربان، مخلص، سچا، ایماندار، شفیق اور دکھ سکھ میں ساتھ دینے اور نبھانے والا، فکری اور نظریاتی حوالے سے پکا پختہ دیش بھگت اور اول آخر سب کچھ اپنے وطن کو سمجھنے والا اور مزاحمتی حوالے سے پروفیشنل کمانڈر والی سب خوبیاں رکھنے والا ایک عظیم انسان تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنے آخری وقت میں بھی فنافی الوطن(بلوچستان ) بنکر سارے بلوچستان کے لئے اپنی عظیم شہادت کے ذریعے نئے راستے، لائین آف ایکشن، قربانی، حوصلہ، بہادری اور ولولے کی بے مثال اور ناقابل شکست مثال چھوڑ گیا ہے۔ جن راستوں اور ڈائریکشنز پر چل کر بلوچستان ایک دن ضرور آزاد ہوگا۔”

یہ بھی پڑھیے 

ایس آر اےکے کمانڈر صوفی شاہ عنایت کیساتھ خصوصی نشست

ایس آر اے کے کمانڈر صوفی شاہ عنایت، دی بلوچستان پوسٹ سے بلوچ تحریک پر اسلم بلوچ کے بعد کے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “قربانیاں اور شہادتیں قوموں اور تحریکوں کے لئے معراج ہوتی ہیں۔ قومی جہدکاروں، بالخصوص لیڈرشپ کے شہید ہوجانے سے وقتی طور پر خلاء اور نفسیاتی طور پر اثر تو ضرور پڑتا ہے، لیکن جس تحریک و تنظیم کے پاس وطن اور قوم کا واضح ویژن، تنظیمی فہم و ادراک، مخلص و ایماندار ٹیم ورک اور درست مزاحمتی حکمت عملی و جدت ہوتی ہے، وہ اس پیدا ہونے والے خلاء کو جلد سے جلد پر کر لیتی ہیں اور جہد آزادی اور مزاحمت میں تیزی لاکر قوم و تحریک کو آگے لے جاتی ہیں۔ استاد محترم اسلم بلوچ کی شہادت کے بعد بی ایل اے کی لیڈرشپ جس فکری، نظریاتی، تنظیمی اور مزاحمتی حوالے سے مجموعی طور پر تحریک کو آگے لے جا رہی ہے، اس حوالے سے سارے دوست تعریف کے مستحق ہیں۔”

اسلم بلوچ ایک روایت شکن جنگی کمانڈر تھے، انکا ہنر محض بندوق تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ ادبی و سیاسی حلقوں میں ایک جانے پہچانے لکھاری تھے، وہ تواتر کے ساتھ نئے و پیچیدہ سیاسی و سماجی مسئلوں پر قلم آزمائی کرتے۔ وہ اپنے خیالات تحریروں، مختلف جرائد، اخبارات و ٹی وی چینلوں کو انٹرویووں کے ذریعے پہنچاتے رہتے تھے۔

بلوچستان کے موجودہ حالات اور آزادی کی جاری تحریک پر گہری نظر رکھنے والے صحافی، سلام صابر گذشتہ ایک دہائی کے دوران Image result for salam sabir balochمتعدد بار مختلف جرائد کیلئے انٹرویو لینے کی غرض سے اسلم بلوچ سے مختلف خفیہ مقامات پر ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ اس دوران بطور صحافی سلام صابر کو اسلم بلوچ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ دی بلوچستان پوسٹ نے سلام صابر سے بات چیت کی اور دریافت کیا کہ انہوں نے اسلم بلوچ کو علمی و سیاسی شعور کے حوالے سے کیسے پایا تو انکا کہنا تھا کہ “آپ کسی بلوچ گوریلہ کمانڈر کا جیسا روایتی خاکہ اپنے ذہن میں رکھتے ہیں، اسلم بلوچ اسکے بالکل برعکس تھا۔ مختلف جرائد کیلئے، کئی بار مختلف خفیہ مقامات پر میری اسلم بلوچ سے ملاقاتیں ہوئیں ہیں اور ہر بار میں انکے ہمراہ بندوق کے ساتھ ساتھ کتابوں کا ایک بنڈل دیکھتا۔ انہیں مطالعے کا بے حد شوق تھا۔ اور انکا مطالعہ بے حد وسیع تھا۔ فلسفہ، تاریخ، اور علم نفسیات پر انہیں بہت عبور حاصل تھا۔ وہ سوالوں کا سیدھا لیکن گہرا و غیر پیچیدہ جواب دیتے تھے۔ سب سے خاص بات انکی تحریریں تھیں، اگر آپ انکی تحریریں پڑھیں تو آپ یقین نہیں کرسکتے کہ یہ تحریریں کسی ایسے شخص کی ہیں جو صرف دسویں جماعت تک پڑھا ہے، بلکہ انکی تحریروں کے رموز، الفاظ کا چناؤ، خیال کی گہرائی اور دلائل آپکو یہ تاثر دیں گے کہ یہ کسی اعلیٰ ادارے سے ڈاکٹریٹ کیئے ہوئے شخص کی تحریریں ہیں۔ اسلم بلوچ ایک جنگجو تھے، لیکن انکی جنگ مکمل طور پر انکے سیاسی نظریات کے تابع تھی۔ گوکہ وہ اپنے نظریات پر سخت گیر موقف رکھتے اور اٹل رہتے، لیکن وہ سامنے والے کی بات بہت غور سے سنتے اور اگر انہیں بھاری دلائل دیئے جاتے تو وہ سامنے والے کی بات بلا دلیل مسترد نہیں کرتے۔”

اسلم بلوچ کو ایک طویل عرصے سے بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں ایک سحر انگیز، دیوقامت شخصیت کی حیثیت حاصل تھی، لیکن مجید بریگیڈ کو قائم کرنا اور اسے متحرک کرنا، انکا ایک ایسا کردار رہا ہے جو انکو انکے دشمنوں کی نظروں میں خطرناک ترین اور دوستوں کی نظروں میں امر بناتا ہے۔

مجید بریگیڈ کے قیام کا اعلان اس وقت ہوتا ہے، جب 2010 کو مجید لانگو ثانی فورسز کے ساتھ ایک دوبدو لڑائی میں جانبحق ہوتے ہیں۔ اس واقعے کے اگلے سال ہی 30 دسمبر 2011 کو مجید بریگیڈ اپنا پہلا کاروائی کرتا ہے۔ جب درویش بلوچ سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کے گھر پر خودکش حملہ کرتا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی کے ایک پریس ریلیز کے مطابق مجید بریگیڈ کو بنانے والے اور اسکے بانی اسلم بلوچ ہوتے ہیں۔ لیکن 2011 کے بعد مجید بریگیڈ کی کاروائیاں روک دی جاتی ہیں۔ لیکن جب 2017 میں اسلم بلوچ، بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بنتے ہیں تو اگلے ہی سال 11 اگست 2018 کو مجید بریگیڈ دالبندین میں چینی انجنیئروں کے ایک قافلے کو خودکش حملے کا نشانہ بناتا ہے۔ یہ خودکش حملہ آور کوئی اور نہیں اسلم بلوچ کے اپنے جوانسال بائیس سالہ فرزند ریحان بلوچ ہوتے ہیں۔ پھر چند ماہ بعد 23 نومبر 2018 کو مجید بریگیڈ کے تین فدائین کراچی میں واقع، چینی قونصل خانے کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ سلسلہ پھر اسلم بلوچ تک نہیں رکتا، انکے بعد 11 مئی 2019 کو چار فدائین گوادر پی سی ہوٹل پر چوبیس گھنٹوں تک قبضہ کرتے ہیں۔

اسلم بلوچ ایک باعمل انسان تھے، اسلیئے جہاں انکے ساتھیوں کا حلقہ وسیع ہے، وہیں انکے مخالفین بھی ہیں لیکن کوئی بھی انکے کردار کے اونچائی سے انکار نہیں کرسکتا۔ وہ ان انسانوں میں سے تھے، جو وقت سے پہلے مرتے ہیں، لیکن تیز جیتے ہیں اور وقت سے زیادہ جیتے ہیں۔