دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دارالحکومت کوئٹہ میں قائم تعلیمی ادارے بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی (بیوٹمز) کے تعلیمی مسائل کے حوالے سے معلومات فراہم کی ان کے حل کے تجاویز پیش کیے گئے۔
بی ایس اے سی رہنماوں کا کہنا تھا کہ ہم پریس کانفرنس کے ذریعے حکومت بلوچستان کو مطلع کرنا چاہتے ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کی انتظامیہ اپنی انا، ضد و من پسندی کو برقرار رکھتے ہوئے بلوچستان کے طلباء کے ساتھ ایک گھناؤنا کھیل رہے ہیں۔
رہنماوں کا کہنا تھا کہ سال 2019ء کے ابتداء ہی میں فیسوں میں زبردست اضافہ کیا گیا جس کی وجہ سے اس سال بہت سارے طلباء ناقابل برداشت تعلیمی اخراجات کے باعث داخلہ لینے سے گریز کر رہے ہیں۔ بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں حکومتی معاشی پالیسیوں کے سبب ایک جانب غربت عروج پہ ہے جبکہ دوسری جانب تعلیمی شرح حیرت انگیز طور پر نچلی سے نچلی سطح پہ جارہی ہے۔ مگر اس کے باوجود آئے روز فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا جارہا ہے جس کو ہم ایک سوچی سمجھی سازش سمجھتے ہیں جس کے تحت بلوچستان میں تعلیم کو غریب طلباء طالبات کے دسترس سے باہر کیا جارہا ہے۔ طلباء طالبات نے فیسوں میں بے تحاشہ اضافے کے خلاف احتجاج بھی کیا لیکن انتظامیہ اپنے فیصلے سے ٹس سے مس تک نہ ہوئی جبکہ مخلتف غیرسطی مسائل کو جواز بناکر طلباء کے تعلیمی مستقبل کو تباہ کرنے میں تلے ہوئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بیوٹیمز جیسا ٹیکنیکل تعلیمی ادارہ فیس مافیا کی شکل اختیار کرچکا ہے یہاں بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کے طلباء مکمل نظر انداز کیے جارہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ ایک سوچے سمجھے اور دانستہ منصوبے کے تحت بلوچ طلباء کے مستقبل کو تباہی و اندھیرے کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔ جس کی ہم نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ حکومت بلوچستان اور متعلقہ ذمہ داروں کی جانب سے مسائل کو اسی طرح مکمل نظر انداز کئے جانے پر اور طالب علموں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر بھرپور احتجاج بھی کریں گے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ ہمیں کہنا پڑ رہا ہے کہ بیوٹمز جیسے ادارے میں لیکچرار کے سلیکشن کا عمل کرپشن اور من پسندی کے بنیاد پر کیے جارہے ہیں۔ ایڈمین اسٹاف کے سلیکشن میں میرٹ کو مکمل پامال کیا گیا جبکہ رواں سال ہونے والے داخلوں میں میرٹ کے بجائے سیاست، شخصیات اور واقفیت کی بنیاد پر عمل کیا گیا جو میرٹ کی پامالی کا مکمل مظہر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں کرپشن، اقرباء پروری اور شخصی اجارہ داری کو قائم کرکے حکومت مستقبل کے معماروں کے بجائے کرپٹ اور سماج کے لئے ناسور کرپٹ لوگوں کو ہی جنم دینے کی باعث بن رہی ہے جو معاشرے کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلی کردیں گی۔
بی ایس اے سی رہنماوں کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے طلباء سنگین ذہنی مسائل اور کٹھن حالات میں اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے اور دور دراز علاقوں سے علم کی پیاس بجھانے کوئٹہ جیسے شہر کا رخ کرتے ہیں لیکن وہاں انتظامیہ کی کرپشن اور من پسندی کی وجہ سے طالب علموں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے، انتظامی ادارے بلوچستان کے طالب علموں کی حق تلفی کے ساتھ ساتھ ان کے تعلیمی کئیریر کو تاریکی میں دھکیلنے کی دانستہ کوششوں میں مصروف عمل ہے۔
انہوں نے کہا بیوٹمز کا چلتن کیمپس تقریباً غیر فعال ہونے کے برابر ہے اسلیے تعلیمی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم گُزارش کرتے ہے کہ اسے جلد از جلد مکمل فعال کیا جائے جہاں طلباء ریسرچ اور دیگر تعلیمی سرگرمیاں سر انجام دے سکیں۔
رہنماوں نے اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے تعلیمی ضروریات کو مد نظر میں رکھتے ہوئے بیوٹمز کے سب کیمپس بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی فعال کیے جائیں تاکہ غریب طلباء اپنے علاقوں میں ہی تعلیم حاصل کر سکیں۔ انہوں نے انتظامیہ اور گورنمنٹ کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ وہ ان مسائل پر جلد از جلد نوٹس لے تاکہ طلباء کو مزید مشکلات برداشت نہ کرنا پڑے اور انہیں مجبوراً مزید احتجاج پر جانا نہ پڑے۔