بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے دالبندین سے 30 اگست 2016 کو فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے حفیظ اللہ محمد حسنی کے لواحقین سے ان کے رہائی کے بدلے 68 لاکھ روپے دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ ملٹری کورٹ کے ایک حاضر سروس میجر کو اپنے اختیارات کے غلط استعمال کے جرم میں ملازمت سے برخاست کرتے ہوئے عمرقید کی سزا سنائی گئی تھی، جس کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے توثیق کردی ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق میجر کے خلاف اقدام محکمانہ احتساب کے نظام کے تحت اٹھایا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی فوج ادارہ جاتی احتساب پر یقین رکھتی ہے۔
عسکری ذرائع کے مطابق مذکورہ میجر نے 2016 میں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایک بلوچ نوجوان کو دالبندین سے اغوا کیا اورنوجوان کے والدین سے 68 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔ مجبور والدین نے بچے کی بازیابی کے لیے رقم کا بندوبست کرکے ادائیگی بھی کر دی لیکن بچہ پھر بھی گھر نہ پہنچ سکا۔
ذرائع کے مطابق میجر نے اغوا شدہ نوجوان کے والدین سے مزید 50 لاکھ روپے کا مطالبہ کر دیا، جس کے بعد نوجوان کے والدین نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر احتجاج کیا تو معاملہ اُس وقت کے کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض تک پہنچا، جنہوں نے معاملے کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیا۔
پاکستان کے عسکری حکام کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے بلوچ نوجوان کے اغوا میں ملوث میجر کو جرم ثابت ہونے پر ملازمت سے برخاست کرنے اور 25 سال قید کی سزا سُنائی تھی۔
برطانوی نشریاتی ادارے انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق عسکری ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سزا یافتہ میجر نے فیصلے کے خلاف ملٹری برانچ جی ایچ کیو میں اپیل دائر کی تھی، جہاں ملٹری برانچ نے معاملے پر نظرثانی کی اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے معاملہ آرمی چیف کو بھجوا دیا اور اب آرمی چیف نے سزا کی توثیق کر دی ہے۔
واضح رہے ضلع چاغی کے علاقے دالبندین سے 30 اگست 2016 کو فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے حفیظ اللہ محمد حسنی کے والدہ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے جاری احتجاجی کیمپ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے کہ تھا کہ ان کے بیٹے کو ایف سی کے میجر نوید نے کلی قاسم خان سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ہے اور بیٹے کی رہائی کے بدلے ان سے تاوان طلب کرنے بعد بھی انہیں رہا نہیں کیا جارہا ہے۔
اس حوالے سے ٹی بی پی نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ سے رابطہ کیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے تنظیم وی بی ایم پی کا موقف واضح ہے کہ پاکستان کے آئین کے تحت بلوچستان میں آئین و قانون کے سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف اقدامات اٹھانے چاہیئے اور ہم سجھتے ہیں کہ آئین سے کوئی شخص بالاتر نہیں ہونا چاہیئے، وہ شخص عام شہری ہو یا کسی بااثر ادارے کا ذمہ دار ہو سب کے لیے یکساں قانون ہونا چاہیئے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ایک دہائی کے زائد عرصے سے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے اور اس سلسلے میں کوئٹہ اور کراچی میں پریس کلبوں کے سامنے احتجاج سمیت تنظیم کی جانب سے کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا جاچکا ہے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے ٹی بی پی کو بتایا کہ حفیظ اللہ محمد حسنی کے والدہ اور بھائی نے ہمارے ہمراہ احتجاج کیا جبکہ حفیظ اللہ محمد حسنی کے تصاویر تاحال کیمپ میں لگے ہوئے ہیں لیکن ان کے بازیابی کے حوالے سے کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
یاد رہے اسی نوعیت کا ایک واقعہ کوئٹہ سے لاپتہ ظفر بلوچ کے ساتھ پیش آیا جنہیں 2015 کو فورسز نے ان کے گھر سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا۔
ان کے لواحقین کے مطابق ظفر بلوچ ولد حاجی غلام محمد بلوچ کو 24 جولائی 2015 کو رات کے تین بجے گھر سے سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نےحراست میں لیکر اپنے ساتھ لے گئے جبکہ فورسز کے ہمراہ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد موجود تھے۔
ظفر بلوچ کے لواحقین کے مطابق آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اہلکاروں نے ظفر بلوچ کی رہائی کے بدلے 35 لاکھ روپے مانگے جو انہیں فراہم کردی گئی تھی جس کے بعد بھی ان کے لواحقین نے کئی مہینوں تک ان کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا تھا تاہم بعد میں 18 مارچ 2019 کو ظفر بلوچ کو رہا کردیا گیا۔