بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حمّل کاشانی کو ان کے یونیورسٹی کے ایک دوست نے ان کی تصویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شئیر ہونے کے بارے میں بتایا اور مختلف اکاؤنٹس کے لنک بھی ساتھ بھیج دیے۔ جب حمّل نے بھیجے ہوئے لنک کو کھول کر دیکھا تو وہ دنگ رہ گئے۔
’مجھے تصویر دیکھ کر دھچکا لگا کیونکہ میری تصویر کو گوادر کے پرل کانٹیننٹل ہوٹل پر حملہ کرنے والے شخص سے منسوب کر کے الزام لگایا جا رہا تھا کہ حملہ میں نے کیا ہے۔‘
پوسٹ کی گئی تصویر کے نیچے لکھا تھا ’گوادر پی سی ہوٹل میں مارا جانے والا حمّل فاتح بلوچ جس کے لاپتہ ہونے کا تماشہ کیا گیا‘۔ اور ساتھ ہی حملے میں مارے جانے والے حملہ آور حمّل فاتح بلوچ کی تصویر کے نیچے حمّل کاشانی کی تصویر بھی لگا دی گئی۔
حمّل کاشانی کے مطابق یہ تصویر حملے کے تین دن بعد بھی کئی اور سماجی رابطے کے اکاؤنٹس پر شئیر کی جارہی ہے جس سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کو جواباً اور مجبوراً سماجی رابطے کی ویب سائٹ کا ہی سہارا لینا پڑا جس کے بعد ان کے دوستوں اور احباب میں سے کئی لوگوں نے ان کا ساتھ دیتے ہوئے اس غلط خبر کو رد کیا۔
حمّل بلوچستان کے ڈسٹرکٹ پنچگور کے رہائشی ہیں اور انھوں نے اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے 2015 میں انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کیا تھا۔ تحقیق کے شعبے سے تعلق رکھنے کے باعث حمّل اکثر اخباروں کے لیے کالم نگار کے طور پر بھی لکھتے رہے ہیں۔ ان کی ڈیلی ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک کالم پر لگی تصویر کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر موجود کچھ اکاؤنٹس نے نہ صرف ایک حملہ آور سے منسوب کیا بلکہ اس کو وائرل بھی کیا۔
’پہلے تو سوچا کچھ نہیں کہوں، کیونکہ ڈر تھا گھر والے پریشان ہوجائیں گے۔ لیکن پھر بہت سارے دوستوں کے پیغامات آنے کے بعد سوچا کہ اس بات کو واضح ہونا چاہیے کہ جس شخص کو مجھ سے منسوب کیا جارہا ہے وہ میں نہیں ہوں۔‘
حمّل نے 15 مئی کو ٹوئٹر پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ پچھلے کئی دنوں سے ان کی تصویر کو ایک منظم طریقے سے وائرل کیا جا رہا ہے اور کہا کہ ’میں اس پوسٹ کے توسط سے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ مجھے ان حملے آوروں سے منسوب نہ کیا جائے۔‘
حملہ آور یا جبری طور پر گمشدہ؟
جیسا کہ ہر واقعے کے بعد دیکھنے میں آتا ہے، گوادر کے پرل کانٹیننٹل میں ہونے والے حملے کے بعد بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کئی لوگوں نے اپنی طرف سے اس واقعے کو بیان کرنے اور واقعے میں ملوث عسکریت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد کی تصاویر شیئر کیں۔
سب سے پہلے خبر دینے کے چکر میں کئی غلط خبریں گردش کرنے لگیں۔
اسی لیے جب سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر حملہ آور حمّل فاتح بلوچ کی تصویر گردش کرنے لگی تو زیادہ تر افراد نے اُس کو گذشتہ تین سال سے جبری طور پر گمشدہ ہم نام حمّل خان مری سے جوڑ دیا۔
— Akhtar Mengal (@sakhtarmengal) May 12, 2019
یہ خبر بھی اسی طرح چلتی رہتی اگر بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر اختر مینگل اس حملے میں کیچ سے تعلق رکھنے والے حملہ آور حمّل فاتح بلوچ اور کوہلوُ سے جبری طور پر گمشدہ کیے گئے حمّل خان مری میں فرق نہ بتاتے۔ اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ’بظاہر ایسا لگ رہا ہے جیسے بلوچستان میں حمّل نام کا صرف ایک ہی شخص ہے جو یا تو دہشت گرد ہے یا پھر مسنگ پرسن۔‘
حملے میں ہلاک ہونے والے ایس ایس جی کمانڈو یا ٹریفک حادثے کا شکار؟
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جب انھوں نے گوادر حملے میں ہلاک ہونے والے نیوی کے ایس ایس جی کمانڈو عباس خان کے حوالے سے ایک دردمندانہ ٹویٹ کا جواب دیا۔ ایک ٹوئٹر صارف کی طرف سے اپنے صفحے پر لگائی گئی تصویر کو اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے شیئر کرتے ہوئے آصف غفور نے لکھا کہ ’الفاظ کافی نہیں ہیں (افسوس) ظاہر کرنے کے لیے۔۔۔ہم اس معصوم بچی کے قرض دار ہیں۔۔‘
اس تصویر میں ایک نومولود بچی کو اپنے والد کی لاش کے پاس لٹایا گیا ہے۔
میجر جنرل آصف غفور کی 13 مئی کو کی گئی اس ٹویٹ کو اب تک سات ہزار بار شیئر جبکہ بیس ہزار سے زیادہ مرتبہ لائک کیا گیا ہے۔
لیکن اس بارے میں نیوی کے ایک ترجمان نے بی بی سی کی طرف سے کیے گئے سوال کے جواب میں بتایا کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شیئر کی گئی تصویر ان کے دستے کے جوان کی نہیں ہے اور انھوں نے عباس خان کی تصویر بھیجتے ہوئے کہا کہ اس تصویر کو استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ تصویر فیس بُک اور دیگر سماجی رابطے کے صفحوں پر شیئر ہونے والی تصویر سے بالکل مختلف ہے۔
اس تصویر کی تصیح فیس بُک پر ہزارہ اپ ڈیٹ اور وائس آف ہزارہ نامی ایک صفحے پر کی گئی۔ اس پوسٹ میں وہی تصویر شیئر کی گئی جو میجر جنرل آصف غفور نے اپنے صفحے سے شیئر کی تھی۔ لیکن فیس بُک پر پوسٹ کی گئی اس تصویر کے اوپر تصویر میں دیکھے جانے والے شخص کی موٹر سائیکل حادثے میں موت کے نتیجے میں ان کے ورثا سے اظہارِ افسوس کیا گیا ہے۔