بلوچستان میں خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی اور دوران حراست قتل عام کے واقعات نے انسانی بحران کی سی صورتحال کو جنم دیا ہے جس سے بلوچستان کا ہر طبقہ فکر سخت متاثر ہوا ہے – بی ایچ آر / وی بی ایم پی کی پریس کانفرنس
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، انسانی حقوق کی پامالیوں اور گذشتہ روز سے ضلع آواران میں جاری فوجی آپریشن کے حوالے سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم احتجاجی قیمت میں پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا گیا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافہ اور لوگوں کو اجتماعی سزا کے طور پر اغوا کرنا انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے۔ آئے روز سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں متعدد افراد کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا جاتا ہے اور دوران حراست تشدد کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے یا ان پر غیر انسانی تشدد کیا جاتا ہے اور ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دیا جاتا ہے اور بعض اوقات اجتماعی قبروں میں دفنا دیا جاتا ہے۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن، گھروں میں چھاپہ روز کا معمول بن چکا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان ایک نو گو ایریا کی شکل میں تبدیل ہوچکا ہے جس کی وجہ سے عام عوام کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔
رہنماوں نے کہا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن خواتین اور بچوں کی ماورائے عدالت گرفتاری میں تیزی انتہائی تشویشناک عمل ہے جس کی مذمت کرنا اور ایسے اقدامات کی روک تھام کے لئے اقدامات کرنا ہر فرد کا اولین فریضہ ہے لیکن بد قسمتی سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیوں پر خاموشی ایک المیہ کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان ایک انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن سے کئی بلوچ فرزندوں کو خواتین و بچوں سمیت جبری طور پر گمشدہ کردیا گیا ہے۔ گذشتہ دو روز سے کولواہ آواران میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے نظام زندگی مکمل مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں اور اس آپریشن میں متعدد خواتین کو بچوں سمیت لاپتہ کردیا گیا۔ سیکورٹی فورسز نے آواران کے علاقے پیراندار زیلگ کے علاقے کو مکمل محاصرے میں لیکر عام آبادی پر دھاوا بول دیا اور گھروں پر چھاپہ مار کر کئی قیمتی سامان کو بھی لوٹ لیا گیا۔ خواتین اور بچوں کو حراساں کرنے کے بعد متعدد خواتین اور بچوں کو جبری طور پر گمشدہ کردیا گیا جن میں عبدالحئی ان کی بیٹی بی بی شہناز ایک سالہ بیٹا فرہاد، صنم بلوچ اس کا پانچ سالہ بیٹا ملین اور دس روز کی بچی ماہ دیم، نازل اور ان کے دس سالہ بیٹے اعجاز شامل ہیں۔ کل رات سیکورٹی فورسز نے حب چوکی میں عبدالباقی کے گھر پر چھاپہ مار کر بی بی زینت اور اس کی بیٹی امبر کو ماورائے عدالت لاپتہ کردیا اور صبح انہیں واپس چھوڑ دیا گیا۔ واضح رہے کہ زینت لاپتہ جمیل احمد کی بہو ہے جسے چھ سال قبل آواران سے اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا ہے جن کا تاحال کچھ پتہ نہیں ۔
انہوں نے کہا گذشتہ دنوں حب چوکی اور رئیس گوٹھ میں چھاپہ مار کر ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا اور کل رات ایک بار پھر دلمراد بلوچ کے گھر پر چھاپہ مار کر خواتین اور بچوں کو محصور کرکے رکھا گیا جبکہ خواتین کے موبائل فون بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ سیکورٹی فورسز نے بلوچستان میں خوف کے ماحول کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے انسانی جانوں کے تحفظ پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔
2017 میں سیکورٹی فورسز نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی میں اضافہ کیا تھا جو پوری شدت کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ اسی طرح جولائی دو ہزار اٹھارہ کو مشکے میں آپریشن کرکے بلوچ خواتین نور ملک کو ان کی دو بیٹیوں سمیت لاپتہ کردیا جو تاحال لاپتہ ہیں جبکہ اسی سال مارچ کے مہینے میں مشکے گجلی سے بی بی نوری کو دو نواسیوں سمیت اٹھا کر لاپتہ کردیا جن کا کچھ پتہ نہیں اسی طرح جھاؤ سمیت دیگر علاقوں سے بھی متعدد بلوچ خواتین کو بچوں سمیت اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا ہے جو انسانی حقوق کی بد ترین صورتحال کی غمازی کرتی ہیں۔
رہنماوں نے مزید کہا بلوچستان میں خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی اور دوران حراست قتل عام کے واقعات نے انسانی بحران کی سی صورتحال کو جنم دیا ہے جس سے بلوچستان کا ہر طبقہ فکر سخت متاثر ہوا ہے۔
ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے عالمی انسانی حقوق کے اداروں سمیت سپریم کورٹ آف پاکستان اور دیگر اعلیٰ اداروں سے گزارش کرتے ہیں کہ بلوچستان سے ماورائے عدالت گرفتار ہونے والے خواتین اور بچوں کو بازیاب کیا جائے۔ بی بی شہناز اس کے بیٹے فرہاد ولد عبدالحئ اور دیگر خواتین کو بازیاب نہیں کیا گیا تو ہم آئین و قانون کے مطابق احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔