دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق لاپتہ طالب علم شبیر بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ احتجاج جاری ہے جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء نواب لشکری خان رئیسانی، طاہر ہزارہ سمیت سیاسی و سماجی کارکنان کی بڑی تعداد نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء نوابزادہ حاجی لشکری خان رئیسانی نے اس موقعے پر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایک مہذب سماج کیلئے ایسے واقعات، ایسے حالات قابل شرم ہے جہاں ایک صوبے یا ایک سماج کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جبری طور پرلاپتہ کیئے جائے یا ان کی مسخ شدہ لاشیں کسی ویرانے، گلی کوچے یا کسی گاؤں کے کھیت میں ملیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ مہذب دنیا، پاکستان کے انصاف مہیا کرنے والے اداروں، اہل دانش اور ریاست کیلئے ایک چیلینج اور لمحہ فکریہ ہے کہ کئی سال سے بلوچستان کے لوگ اس لیے احتجاج کررہے ہیں کہ ان کے عزیز و اقارب، ان کے کفیل، ان کے سر کا سایہ لاپتہ ہے اور ان کے بارے میں انہیں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔
لشکری رئیسانی نے مزید کہا کہ یہ ہمارا اور لاپتہ افرادکے ورثاء، اس صوبے کے سیاسی پارٹیوں، یہاں کے سیاسی وسماجی لوگوں کا حق ہے کہ اس آواز کو بلند کرے کہ یہاں ایک کیمپ پچھلے ایک دہائی سے قائم ہے اور وہ ریاست سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کے عزیز و اقارب کئی عرصے سے لاپتہ ہیں اور ان کے خاندان کے افراد پریشان ہیں، ان کے بچوں کا تعلیم، ان کا روزگار متاثر ہورہا ہے اور ان کو پالنے والے شخص کے بابت کچھ بھی معلوم نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ کیمپ لگا کر یہ آئینی مطالبہ کررہے ہیں اور پاکستان کے آئین کے مطابق یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کے رشتہ داروں کو واپس لایا جائے اور اگر ان کے اوپر کوئی جرم ہے تو ایک فیئر ٹرائل کے ذریعے ان کو عدالت کے کٹہرے میں پیش کیا جائے اور اگر ان کا جرم ثابت ہوتا ہے تو ان کو یقیناً قانون اور آئین کے مطابق سزا دی جائے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماما قدیر بلوچ نے ہمارے بلوچ سماج کے پردہ دار بچوں اور بہنوں کے ہمراہ ایک پرامن احتجاجی لانگ مارچ کے ذریعے 3 ہزار کلومیٹر چل کر پاکستان کے عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے۔ انہوں نے 3 ہزار کلومیٹر مارچ کرکے واگا کے دروازے پر کسی کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا بلکہ اس ملک کے اُس آئینی ادارے کے دروازے کو کھٹکھٹایا جس کا کام صرف اور صرف سماج کے لوگوں کو انصاف مہیا کرنا ہے مگر اس لانگ مارچ کو بھی کئی سال گزر گئے لیکن لوگوں کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں ہے ۔
لشکری رئیسانی نے کہا کہ ہمارے غیور پردہ دار سماج کے خواتین آج اس گلی میں کئی عرصے سے دھرنا دیکر بیٹھے ہیں لیکن کسی طرف سے بھی سنوائی نہیں ہے۔ ہم ایک آئینی مطالبہ کررہے ہیں کہ ہمارے ان بچوں اور بھائیوں کو منظر عام پر لایا جائے جن کو آپ نے کئی عرصے سے قید کیا ہوا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ اس وقت ملک ایک بہت بڑے بحران سے گزر رہا ہے اور ایک احتجاجی کیمپ انصاف کا طلب گار ہے لیکن ان افراد کو نصاف دینے کی بجائے ریاستی ادارے کنسٹرکشن اور ڈیم کا کام کررہے ہیں یقیناً تاریخ میں اس بات کو ایک مذاق کے طور پے لیا جائے گا کہ جب ایک صوبے کے لوگ اپنے گمشدہ عزیز و اقارب کیلئے احتجاج کررہے تھے اور ریاستی اداروں سے یہ آئینی مطالبہ کررہے تھے کہ ان کے عزیز و اقارب کو ریاست تلاش کرکے واپس لائیں لیکن اس وقت وہ ادارے جن کو انصاف میہا کرنا تھا وہ ڈیم بنا رہے تھے۔
انہوں نے کہا یقیناً ہمارا یہ مطالبہ کچھ لوگوں کو پسند نہیں آرہا ہوگا، جب ہم اور ہمارے یہ بچے آواز اٹھا رہے ہیں کہ گمشدہ افراد کو واپس منظر عام پر لایا جائے تو ایک خاص طبقہ اور ذہنیت سازش تیار کررہا ہوگا کہ اس آواز کو دبایا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم ریاست اور ریاست کے اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان افراد کو واپس منظر عام پر لایا جائے کیونکہ یہ ریاستی اداروں کی ذمہ د اری ہے۔ ہم چور کی بات نہیں کرتے ہیں بلکہ ہم چوکیدار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اور آپ کے ادارے ان افراد کے ٹیکسوں سے اس ریاست کی چوکیداری کے لیئے مامور کیے گئے ہیں۔
لشکری رئیسانی نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو مسخ شدہ لاشیں ملی ہے وہ ہمارے ہی عزیز و اقارب کے ہیں، ہم کو یہ بتایا جائے کہ سینکڑوں کے تعداد میں مسخ شدہ لاشیں آپ نے اس صوبے کے طول و ارض میں پھینکے ہیں ان میں گمشدہ افراد میں سے کون کون تھا۔
اس موقعے پر لاپتہ افراد کے کیمپ میں موجود طاہر ہزارہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ ریاست ظلم اور ناانصافی کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ آپ مجرموں کو رہا کرے بلکہ جس نے کوئی جرم کیا ہے انہیں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کھلی عدالت میں پیش کرے اور ان کے خلاف مقدمہ چلائے، اگر کوئی جرم ثابت ہوتا ہے تو ان کو سزا دے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص لاپتہ ہوجائے، لاپتہ ہونے کا مطلب ہے کہ ریاست کی وجود نہیں ہے اگر ریاست اپنی رٹ کو اہمیت دیتی ہے تو یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو منظر عام پر لائے۔
انہوں نے کہا کہ گمشدہ افراد کا مسئلہ ریاست کے ماتھے پر کلک ہے لہٰذا ریاست اس مسئلے کو حل کرے۔ دنیا کو بتایا جائے کہ اس مسئلے کو ریاست کس طرح حل کریگی۔ اختلافات ہر معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال کیئے جائے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نصراللہ بلوچ نے کہا کہ ہم اپنے تنظیم کی جانب سے تمام سول سوسائٹی، سیاسی و انسانی حقوق کے تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری ماں، بہنیں اپنے پیاروں کیلئے یہاں پرُامن احتجاج کررہے ہیں لہٰذا یہ ان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہاں آئے اور اس احتجاج کا حصہ بنے اور انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شبیر بلوچ کے لواحقین سے کہا گیا تھا کہ آپ کی ملاقات وزیر اعلیٰ سے کرایا جائے گا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چار دن گزرنے کے باوجود ان سے ملاقات نہیں کی گئی، کہا جارہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کسی اور مسئلے میں مصروف ہے لہٰذا میں کہنا چاہتا ہوں آپ عوام کے ووٹ سے منتخب کیے گئے ہے اور آپ کو انہیں جواب دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں کسی بھی قانون کے لحاظ سے دوسرے مسئلوں پر انسانی حقوق کے مسئلے کو فوقیت دی جاتی ہے لیکن ہمارے حکمران لاپتہ افراد کے مسئلے کو نظر انداز کررہے ہیں۔
نصراللہ بلوچ نے کہا کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن سمیت سیاسی پارٹیوں کے ہمراہ اس احتجاج کو وسعت دینگے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھرپور تحریک چلائینگے۔