نوآبادیاتی نظام کے بلوچ سماج پر اثرات
حصہ دوئم
مذہبی پہلو
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
حصہ اول
بلوچ سماج میں مذہب کا اثر و رسوخ نوآبادیاتی نظام سے پہلے اس قدر نہیں تھا، 1947 کے بعد جب ریاست پاکستان کی تشکیل کولڈ وار کے دوران بطور بفر اسٹیٹ کی گئی اور سوشلسٹ ترقی پسندانہ نظریات کے خلاف ایک اڈے کو طور پر قیام سے نہ صرف خطے میں عدم استحکام کی فضا قائم کی گئی بلکہ نوآبادیاتی جبر کے زیر تسلط آنے والے محکوم اقوام کے مستقبل کو بھی نام نہاد “دو قومی نظریے” کی آڑ میں غرق کردیا گیا۔
ایک تھیوکریٹک ریاست کا قیام سامراجی پالیسیوں کا تسلسل تھا لیکن اس تسلسل نے محکوم اقوام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ اب نومولود ریاست نے قوموں سے ان کی پہچان کو تیاگ دینے اور صرف دو قومی نظریہ کی ڈھونگ پر ایمان لانے کے لیئے کوششیں شروع کردیں۔
مذہب کے حوالے سے ملٹی ڈائمینشنل طریقہ کار اختیار کیا گیا تاکہ جلد از جلد لوگوں کے ذہنوں کو کنٹرول کیا جاسکے، تبلیغی جماعت سے لے کر مدرسوں کا جال بچھانے تک اور نصاب میں مذہبی تعلیم کو لازمی قرار دینے تک ہر حوالے سے کوشش کی گئی کہ مذہب کو مقامی باشندوں کے ذہن میں انتہائی مقام تک پہنچایا جائے اور آج اڑسٹھ سال بعد ایک ہجوم تیار ہوچکا ہے، جو نوآبادیاتی نظام کا ثمر ہے۔ آج اپنے انفرادی زندگی و اجتماعی حالت سے نابلد بلوچ آپ کو مذہب پر اچھا خاصا لیکچر دیگا لیکن نوآبادیاتی نظام کے حوالے سے اسے کوئی شعور نہیں ہوگا کیونکہ اس کا ذہن مذہبی انتہا پسندی سے اس حد تک بھر دیا گیا ہے کہ وہ عقیدے کی انتہا پسند کنوئیں سے نکلنے کا سوچھ ہی نہیں سکتا۔
ایک افریقی دانشور لکھتا ہے کہ “جب وہ آئے تو ان کے پاس کتاب تھی اور ہمارے پاس زمین اور انہوں نے کہا یہ خدا کی کتاب ہے اس کو سجدا کرو۔ جب ہم نے سجدہ کیا اور سجدہ کرکے اٹھے تب ہمارے پاس کتاب تھی اور ان کے پاس ہماری زمین۔”
نوآبادیاتی نظام کے لیے مذہب ایک tool ہوتا ہے جس کا استعمال خالصتاً سیاسی طور پر کیا جاتا ہے، جو استعمال برطانوی سامراج نے کی اسی استعمال کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے مزید گہری چالیں چلی گئی ہیں۔ اقلیتیں جو بلوچ سماج کا حصہ ہیں، ان کے لیئے گذرتے وقت کیساتھ گھیرا تنگ ہونا اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ پس پردہ کون ذہنوں کو کنٹرول کررہا ہے اور وہ ہمارے سماج کو کہاں پہنچانا چاہتا ہے۔
تبلیغ کے نام پر لوگوں کو بیگانگی ذات میں مبتلا کرنا، مولوی طارق جمیل صاحب کروڑوں کی گاڑی سے اتر کر ایر کنڈیشن جگہ میں آرام دہ صوفے پر جذباتی تقریر کرتے ہیں کہ دنیا کی زندگی عارضی ہے سادگی اپناو لیکن وہ از خود سادگی کو اپنانے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ یہ اخلاقیات دکھاوے کی حد تک محدود ہے۔ جس طرح رسل لکھتے ہین کہ اخلاقیات کی دو اقسام ہیں “ایک جس کا پرچار کیا جاتا ہے اور ایک وہ جسے اپنایا جاتا ہے۔” اب ان کرتب بازوں کی اخلاقیات پرچار کی حد تک ہے جس کا مقصد لوگوں کو بیگانگی ذات میں مبتلا کرنا ہے۔
ہر سال تبلیغی اجتماعات کی اکثر اجتماعات بلوچستان میں منعقد کی جاتی ہیں اور ایک مخصوص سیاسی نقطہ نظر سے کی جاتی ہیں جس میں لوگوں کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ اگر آپ پر ظلم ہورہا ہے تو آپ اس پر خاموش رہیں، صبر کریں۔ اس دورانیئے میں ایک اہم پہلو بلوچ بیٹی کو باوقار بلوچی لباس سے عربی برخے میں قید کردیا گیا ہے، اس کردار کو جہاں آگے بڑھ کر قومی جہد مسلسل میں کردار ادا کرنا تھا وہی اس تبلیغی جماعت نے یہ ذہنوں میں ڈال دیا کہ عورت کو چار دیواری سے باہر نہیں نکلنا چاہیئے، ایسا اس لیئے بھی ہے کہ جب ماؤں سے شعور کا حق چھین لیا جاتا ہے تب بچوں تک جہالت کو منتقل کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے یوں ہمارا سماج مزید تنزلی کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔
تبلیغی جماعت کے ذریعے انتہا پسندی کے لیے جو راہیں ہموار کی گئیں اس پر آگے چل کر سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور دیگر مذہبی جہتوں کے لیے کام آسان ہوگیا۔ یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ جس طرح تبلیغی جماعت کی توجہ کا اصل مرکز بلوچ علاقے ہوتے ہیں اسی طرح ان مذہبی جھتوں کا رخ بھی بلوچ علاقوں کی جانب موڑنا خالصتاً نوآبادیاتی پالیسیوں کا تسلسل ہے اور انہی پالیسیوں نے بلوچ کے سیکولر مزاج پر مذہبی جنون میں فرقہ پرستی کا لیبل چسپاں کردیا اور اس کا سب سے زیادہ نقصان ہزارہ برادری کو اٹھانا پڑا۔ ہزارہ برادری کا قتل عام کیا گیا، یہاں تک کہ ان کی ماؤں کو بسوں میں گولیوں سے بھون دیا گیا اور یوں بلوچ کوڈ آف کنڈکٹ پر نوآبادیاتی پالیسیوں کی چھینٹیں پڑنی لگیں۔ یہ وہی بلوچ سماج تھا جہاں اقلیت اس کا حصہ بن کر پرامن زندگی گذارتے تھے لیکن اس سرزمین کو بلوچ سمیت اس پر بسنے والے اقلیتوں کے لیے جہنم بنا کر رکھ دیا گیا۔ ہندو تاجروں کو اغوا کیا گیا، ذکری فرقے کو نشانہ بنایا گیا، حبیب جالب و صبا دشتیاری کو کافر قرار دے کر شہید کیا گیا یہ سلسلہ اب تو مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔
مدرسوں کے ذریعے ہمارے بچوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کی آڑ میں استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ ساری صورتحال اس قدر آسان نہیں اور نا ہی اس حوالے سے کوئی سنجیدہ ڈسکشن ہوئی ہے بلکہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے نوآبادیاتی نظام کی اکثر حقیقتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے راہ فرار اختیار کیا ہے لیکن اب اس حوالے سے سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان پہلوئوں پر لکھنے کی اشد ضرورت ہے وگرنہ آنے والے وقت کیساتھ یہ مسائل مزید سنگین صورتحال اختیار کرلینگے۔
نوآبادیاتی نظام کی جانب سے مذہبی شدت پسندی کی جانب دھکیل کر ہمیں اس مقصد سے دور ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں ہمارے قوم کا اجتماعی بقاء ہے، اس کا مقصد خالصتاً سیاسی ہے کہ بلوچ قوم کو بلوچ تحریک سے بیگانہ کیا جائے اس لیے ہمیں اس کا مقابلہ شعوری طور پر کرنا ہوگا۔