سیندک یونیورسٹی تک کا سفر – کاظم ذگر بلوچ

321

سیندک یونیورسٹی تک کا سفر

تحریر: کاظم ذگر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ: کالم 

 

جب میں چوتھی جماعت کا طالبعلم تھ تو اکثر سیندک سے آگے سالانہ گرمیوں کی چھٹیاں چاغی کی پُرفضا بلند و بالا کوہساروں کے درمیان کچاو میں گذارنے چلے جاتے تھے، جہاں دنیا سے بے خبر ایک گاوں جس میں آبِ رواں جو آبِ حیات کی طرح جاری و ساری ہے؛ ہر طرف سبزہ و باغ سے چشمِ پُرنور ہوتے ہیں اور ان پہاڑیوں کے درمیان گدان و بُزگل کی موجودگی کا ایک الگ ماحول تھا؛ دُودھ و دہی شیر و مکھن سُمبار و دیسی گھی مشک و مشکیزہ زک و روغن کا ایک الگ مزہ تھا۔

جب سیندک سے کچاو کی جانب جارہے تھے تو پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ کون سی جگہ ہے جہاں چند گھرانے رستے میں موجود ہیں تو پتہ چلا کہ یہ سیندک ہے۔ یہاں سے سونا چاندی نکالا جاتا ہے اور خمار ہی نہ رہا کہ یہ سونا چاندی تانبا ہے کیا بلا اور موجودہ عالمی مارکیٹ میں اس کی کیا ویلیو ہے؛ بہترین روڈز بنے ہوئے تھے چاک و چوبند لیویز موجود تھی، اسٹریٹ لائٹس اور روڈ کے ساتھ درخت لگائے گئے تھے، سفر کے ساتھ ساتھ ایک پُر فضاء ماحول سے لطف اندوز ہوا جارہا تھا۔

آگے جاکر ایک بہت بڑی بلڈنگ دیکھی جو رنگ و روغن تھی، قمقمے دن کو چراغاں تھے، بچے بچیوں کا جمِ غفیر تھا، بچے وائٹ ڈریس اور اساتذہ بلیک ڈریس زیب تن کیئے ہوئے تھے، پوچھا یہ کیا ہے۔ کہا گیا یہ سیندک ماڈل سکول اینڈ کالج ہے پیچھے جو بلڈنگ ہے وہ اس کی یونیورسٹی ہے بلکہ سکول؛ کالج اور یونیورسٹی ایک ساتھ ہیں اور آج کل اسے ایجوکیشنل سٹی کہا جاتا ہے اور یہ پورے بلوچستان میں وہ واحد گاوُں ہے جہاں سکول کالج اور یونیورسٹی ایک ساتھ ہیں، نہ صرف یہاں سیندک چاغی بلکہ پورے ملک سے بچے یہاں ایڈمیشن لے چکُے ہیں۔

یک دم میرے ذہن میں اپنے گاوں کا سکول یاد آیا، جس میں ٹوٹا پُھوٹا بلیک بورڈ؛ ٹوٹے ہوئے دروازے ؛ پھٹے ہوئے ٹاٹ ؛ سخت جھلستی گرمی، بجلی کی عدم فراہمی؛ سخت سردی میں ہر بچے کا گھر سے اپنے ساتھ خود لکڑی کے چند ٹکڑے لانا کبھی سیاہی تو کبھی تختی کا نہ ہونا ذہن میں گھوم رہے تھے، جبکہ اس ماڈل اسکول اینڈ کالج میں عالمی معیار کے تعلیم دی جارہی تھی چونکہ یہاں چائنا کی کمپنی ایم آر ڈی ایل کام کررہی ہے لہٰذا بییجنگ اور ہانگ کانگ کا نصاب تعلیم پڑھایا جارہا ہے۔

اس سکول ایںڈ کالج میں چائینیز کمپنی کے ملازمین کے بچے اور ایس ایم ایل کے آسلام آباد کے ملازمین کے بچے آسلام آباد سے آکر یہاں پڑھ رہے ہیں کیونکہ یہ عالمی معیار کی تعلیمی رینکنگ کا ٹاپ ٹین تعلیمی درسگاہ ہے۔

میں بھی وہاں پڑھنا چاہتا تھا، یوں گاڑی روکی گئی، ایک قریبی رشتے دار کے گھر گئے جہاں اگلے دِن مجھے اس سکول میں داخل کردیا گیا اور سیندک کچاو سرزئے لشکری آپ بیدوک رباط کے سینکڑوں بچوں کے ساتھ مابول بن گیا اور مل کر پڑھائی میں مصروف رہے؛ جہاں ہر مضمون کے ٹیچر لیکچرار موجود تھے۔ سکول میں عالمی معیار کا کمپیوٹر سائنس کا لیب؛ عالمی معیارکا سائنس روم، جہاں مختلف قسم کے پریکٹیسز ہوتے اور سائنس کو سمجھنے کے تمام سہولیات میسر تھیں جبکہ عالمی معیار کا بہترین لائبریری موجود تھی، جہاں ایجوکیشن، کورس سے متعلق سیاست انتھرپولوجی ادب فکر و فلسفہ تصوف تخلیق و ترتیب کیئرئیرکونسلنگ سمیت مختلف موضوعات پر کتب موجود تھیں اور ساتھ ہی ڈیجیٹل لائبریری موجود تھی جہاں دنیا کے مختلف یونیورسٹیز کی کلاسز کی لائیو لیکچر سننے کا بھرپور موقع میسر تھا، جو دنیا کوسمجھنے کا بہترموقع تھا۔

جہاں میس سے لیکر ہاسٹل میں رہنے، وردی لانڈری سمیت تمام سہولیات مہیا تھیں شب و روز گذرگئے ہم دوستوں کے ساتھ گُھل مل گئے، صبح کلاس ہوتی چھٹی کے بعد فریش ہونے کے بعد میس میں کھانا لگتا، دوپہر کو آرام کے بعد نماز پڑھتے آرام کے بعد ایک بہت بڑا اسپورٹس کورس طلباء کے لیئے بنایا گیا تھا، جہاں طالب علم مل کر کرکٹ، فٹبال، والی بال، گالف اور دیگر انڈور گیمز کھیل سے جسمانی طور پر مضبوطی کی پریکٹس میں مصروف ہوتے اور شام کو کچھ طالب علم لائبریری جاتے۔ کچھ طالب علم ٹیوشن سینٹر جاکر کورس کی تیاری کرتے جبکہ ساتھ ہی ایک بہت بڑا سینما ہاوس بنایا گیا تھا جبکہ ہر سنڈے کو طلباء کی ذہنی نشوونما کے لیے عمر کے حساب سے فلمز چلائے جاتے تھے تاکہ ان کی تخلیقی سہولیات پر گرد نہ پڑے اور آنے والی زندگی میں یہ نوجوان تخلیقاتی دنیا میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

ادب شاعری و نبشتہ کاری ماہانہ بنیادوں پر ہوتی تھی، جہاں کلاسز کا مقابلہ ہوتا تھا، جس سے ان کی اندر چھپے تخیل کی آبیاری مقصود تھی۔

طلباء کی تعلیمی زندگی جاری رہی ساتھ ہی اربوں کھربوں ڈالر کے ذخائر سے نکالے جارہے تھے۔ طلباء بہترین اسکول اینڈ کالج جبکہ ان کے والدین اس پروجیکٹ میں اعلیٰ پوزیشنز پر کام کررہے تھے اور ان طلباء کو ماہانہ وظیفہ الگ مل رہا تھا جس سے ان کی زندگی روشنی کی جانب گامزن تھی اور ایک روشن مستقبل سیندک تفتان چاغی کی منتظر تھی۔

وقت رواں رہا یہ بچے جوان ہوئے اور سیندک پروجیکٹ کے عالمی تعلیمی وظائف سے امریکہ؛ فرانس؛ جرمنی؛ ناروے چائنا؛ ہانگ کانگ و دنیا کے دیگر چنیدہ یونیورسٹیز میں یہاں کے مقامی طلباء کے داخلے ہونے لگے تھے، جہاں یہ نوجوان سائنس؛ ادب قانون ؛سیاسیات ؛سماجیات انتھراپولوجی؛ تاریخ فلسفہ؛ لینگویجز پڑھ رہے تھے اور آج کئی نوجوان اس سیندک پروجیکٹ کے سکول کالج یونیورسٹی سے فارغ ہوکر دنیا کے مختلف اداروں ناسا، آئل اینڈ گیس کمپنیز؛ سائنسی اداروں؛ گول ایمیزون ؛ فس بُک؛ یورپ امریکہ؛ افریقہ؛ خلیج ؛ روس سمیت دنیا کی مختلف کمپنیز میں کام کررہی ہیں اور اکثر عالمی کمپنیز و مالیاتی اداروں بینکس میں سی ای اوز پریزیڈنٹس یہی سیندک کے لوگ ہیں۔

ایک دن ملکی سطح اور عالمی سطح پر موجود طلباء کا ریکارڈ جو اب پوری دنیا میں اچھی اچھی پوزیشنز پر ہیں انہیں ای میل کیا گیا کہ سیندک پروجیکٹ سکول اینڈ کالج کا تین دہائیوں پر مشتمل تیسواں کمبائنڈ ائیر گولڈن جوبلی منا رہی ہے کیونکہ بہترین تعلیمی، سماجی حقوق دینے پر اسے ایم آر ڈی ایل کو سیندک پروجیکٹ کے نئے مائننگ سائیٹ پر کام کرنے کا ایگریمنٹ ملا ہے، جہاں پوری دنیا سے بولی لگائی گئی، مگر مقامی لوگوں کی بھرپور حمایت سے ان کو یہ نیا ٹھیکہ ملا ہے، اسی لیئے یہ پروجیکٹ اپنے اثاثے یعنی طلباء کو بُلا کر اپنے طلباء کے ساتھ نئی ایگریمنٹ اور سوشل رائٹس دینے کی عظیم گولڈن جوبلی منارہی ہے لہٰذا پچیس مارچ تک پورے ملک اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے طالب علم، فارغ شدہ طلباء جو عملی لائف میں ہیں وہ پچیس مارچ کو پہنچ جائیں تاکہ گولڈن جوبلی منایا جاسکے۔

چونکہ آج سیندک پروجیکٹ کے مینیجنگ ڈائریکٹر سیندک کے قریبی علاقے ہرِنر کے مقامی زمین دار و چرواہے ناکو بٹے کا بیٹا ہے جو ان تمام طلباء کو بخوبی جانتا ہے، براہ راست رابطہ کرکے ان کواس گولڈن جوبلی جشن کا دعوت دے رہا ہے۔ پورا سیندک گاوں جو اب ایک شہر کی صورت آختیار کرچکا ہے، ہر طرف ڈبل روڈز؛ بڑی بڑی بلڈنگز شاپنگ مال ؛ ٹیکنیکل ادارے سماجی گیدرنگ پارکس سینما ہاوسز موجود ہیں اور لائف اب کافی بدل چکی ہے۔
چوبیس مارچ کی شام کو پوری دنیا سے طلباء اور اس سکول و کالج سے فارغ شدہ ملٹی نیشنل کمپنیز کے سی۔ای۔اوز مالیاتی اداروں کے بینکرز؛ ناسا کے ملازمین؛ بڑے بڑے معالجی ادروں سے فارغ شدہ ڈاکٹرز؛ نرسز سیندک ائیرپورٹ پر بوٙئنگ 777 سے پہنچنا شروع ہوگئے تھے اور ان میں بلوچ خان ؛ بالاچ؛ سُمالان؛ رودین؛ کمبر جان؛ کارواں کُش؛ مُرید ھان؛ ازبوتک؛ کلپورگ؛ اسپے پُل ؛ وش دار؛ زروش گُل اور پورا شہر اپنے ان سپوتوں کے ریسیونگ کے لیئے موجود تھے۔ آتش بازی بلوچی چاپ و فائرنگ کا سماں تھا اور والدین کی خوشی دیدنی تھی کیونکہ ناکو عبدل؛ ناکو چاہ وش؛ ناکو فقیر داد؛ اور ناکو مسکان و ناکو پکیر بخش سمیت کئی بزرگ اپنے بچوں کو نہیں پہچان رہے تھے کیونکہ دس سال باہر رہ کر ان کے چہرے اور وضع بالکل بدل چکے تھے اور ان بزرگوں کے اپنے بچوں اور ان بچوں کا اپنے والدین کو دیکھ کر خوشی کے آنسو رواں تھے اور مائیں اپنے بچوں کے آنے کی خوشی میں نازینک گارہی تھیں جبکہ دادی بلُوک صد گنج سب سے آگے آگے تھی۔

اگلی صبح اسٹیج سجا دیا گیا تمام طلباء مقامی کالج سکول و یونیورسٹی کے تھے اور جو طلباء باہر کے یونیورسٹیز سے آئے ہوئے تھے اور جو مختلف عالمی اداروں کے مقامی ملازم تھے وہ بھی موجود تھے جس میں مقامی لوگ پروجیکٹ کے ملازمین و آفیسران ضلعی انتظامیہ و آفیسران صوبے کا گورنر و وزیر اعلیٰ منسٹرز ملک کا صدر موجود تھے، جیسے ہی صوبے کے وزیر اعلیٰ و گورنر نے افتتاح کا فیتا کاٹنا چاہا،

میری آنکھ کھل گئی کیونکہ میں کچاو کے پہاڑیوں میں ایک پہاڑی انجیر کے درخت کے نیچے سر کے نیچے پتھر رکھ کر سورہا تھا جبکہ پہاڑی آسک کی ہنہناتی خوش پسند آواز اور سیسو و چکوروں کی آواز نے مجھے جگا دیا اور سورج کی روشنی سے میری آنکھیں چندھیا گئیں میں نے چادر جھاڑا
اشھد ان محمد رسول اللہ
پڑھ پڑھ کر منہ دھولیا

کیتلی نکال کر گون و تاگز کے لکڑیوں سے چائے بنائی اور ناشتہ انجیر کے پھولوں کے ساتھ کرکے سامان باندھ کر روسی موٹر سائیکل کے ساتھ اپنے شہر کی جانب رخت سفر باندھا۔ پہاڑوں سے جیسے اُتر کو روڈ پر آیا تو سنگ و مٹی سے اُبھرا ہوا رستہ میرا استقبال کررہا تھا، جس ست مٙی اُٹھ رہا تھا۔

جیسے ہی سیندک کے قریب پہنچا تو بچے مٹی میں اٹے ہوئے تھے، کسی کا قمیض پھٹا ہوا تھا تو کسی کے پاوں میں جوتے نہیں تھے، تو کئی چہروں پر جلدی بیماریوں کے نشانات تھے، تو کئی بچے بڑے بوڑھے آنکھوں کی جان لیوا بیماریوں کا شکار تھے؛ کچے مکانات و سنگ بستی مکانات، راہ چلتے اپنی پسماندگی؛ لاچارگی؛ بزگی ؛ بدحالی کی صورت خود بیان و نمایاں کررہیں تھیں۔

آگے جاکر سکول کہ حالت دیکھی جو اک اُجڑی ہوئی کٹیا تھی، جس میں تاریکیوں اور ظلمتوں کا راج تھا کلاسز کے پنکھے فالج زدہ تھے؛ بجلی کے بورڈ الھڑے ہوئے تھے، جو کسی بھی بچے کہ جان لے سکتے تھے، دروازے کھڑکیاں ٹوٹ کر آپنی کہانی ازخود بیان کررہے تھے۔ جو تعلیمی تنزلی پسماندگی کا عملی تصویر تھی جبکہ سکول کے پرنسپل کے کمرے پر ترس آرہا تھا اور طلباء کے چہروں سے پسماندگی و درماندگی کے آثار نمایاں تھے۔

اس طرح جب ہاسپیٹل کا دورہ کیا، جہاں چند سہولیات رکھی ہوئی تھیں جو صرف کمپنی کے فارن ملازمین کے لیئے تھیں، جبکہ باہر مقامی بیماران کی طویل لائن تھی جو مختلف بیماریوں کا شکار تھے، سب سے زیادہ مریض جگر اور پھیپھڑوں کے تھے کیونکہ چمنی کے زہریلی دھوئیں اور زہریلے پانی جو زیر زمین پینے کے پانی سے مکس ہوچکی تھیں، اس سے پوری کلی بیماری کا شکارہوچکی ہے اور ایک ترقی یافتہ گاوں سے بدل کر شہر بننے کے بجائے سیندک شہرِ مریضاں بن چکی ہے۔
کاظم ذگر بلوچ
جنرل سیکرٹری پریس کلب نوکنڈی فورم