اشتراک عمل اور جنگ بندی، بدلتی بلوچ سیاست
دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
بہزاد دیدگ بلوچ
گذشتہ صدی کے آخری دہائی میں بلوچستان کی آزادی کیلئے شروع ہونے والی تحریک اپنے پیش رو تحاریک سے مختلف تھا، اسی لیئے اسکے بابت مختلف اندازے اور قیاس آرائیاں ہوتی رہیں۔ کچھ اسے جدید سائنسی و نظریاتی بنیادوں پر استوار تحریک گردانتے رہے اور کچھ اسے بھڑکنے کے معنوں میں تشریح کرتے رہے، جسے چند سالوں میں دوبارہ ٹھنڈا ہونا تھا، لیکن ان اندازوں سے قطع نظر پہلے دہائی کے دوران اس تحریک نے بے پناہ عوامی پذایرائی حاصل کی اور بہت تیزی سے بلوچستان کے کونے کونے میں پھیل گیا۔
اس تیزی کے بعد موجود تحریک کے خلاف ریاست نے اپنی پوری قوت کا آزادانہ اور بے رحمانہ استعمال شروع کردیا، جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ماورائے قانون خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء ہوکر ہنوز لاپتہ ہیں اور ہزاروں جانبحق ہوگئے۔ ان سخت ترین ریاستی پالیسیوں اور وسیع پیمانے کے آپریشنوں کے بعد، بلوچستان میں آزادی پسند سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں کیلئے کھل کر پر امن سیاست کرنا ناممکن ہوگیا۔
لیکن تمام اندازے اس وقت غلط ثابت ہوگئے جب دو دہائیوں سے زائد عرصہ گذرنے کے باوجود، بلوچ آزادی پسند مزاحمتی تحریک اور مسلح تنظیمیں نا صرف ابتک بلوچستان میں ایک مضبوط حیثیت کے ساتھ موجود ہیں اور کاروائیاں کررہے ہیں بلکہ جس حیثیت سے انہوں نے مزاحمت کا آغاز کیا تھا، اسکے نسبت سے آج وہ کمزور نہیں بلکہ افرادی قوت، عسکری قوت اور علاقائی کنٹرول کے حوالے سے کئی گنا زیادہ مضبوط نظر اتے ہیں۔ یہ اس گمان کو رد کرچکا ہے کہ یہ تحریک بس آگ کی طرح ایک دم بھڑک کر پھر ٹھنڈی پڑ جائے گی، بلکہ اب یہ بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچ مسلح تنظیمیں ایک طویل چھاپہ مار جنگ لڑنے کی صلاحیت منواچکے ہیں، جو اب شاید کئی سالوں اور آسانی کے ساتھ جاری رہ سکتا ہے۔
ان مثبت پہلووں سے قطع نظر، بلوچ مسلح تنظیموں نے اس دوران بہت سی ایسی کمزوریاں ظاھر کرنا شروع کردیں، جس سے یہ اندیشہ ہونے لگا کہ اب ان تنظیموں میں کسی بڑے پیمانے کی عوامی حمایت کو سنبھالنے اور مزاحمت چلانے کی صلاحیت معدوم ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ تنظیموں کے اپنے اندر خستہ حال ساخت اور بین التنظیمی تعلقات تھے۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے علاوہ باقی کوئی بلوچ مسلح تنظیم ایک باقاعدہ ڈھانچہ اور قاعدہ نہیں دے سکی، جس کی وجہ سے ہمیں تنظیموں کے اندر اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ نظر آنے لگے اور دوسری طرف مذکورہ تمام تنظیمیں ریاستی سخت پالیسیوں اور قوت کے استعمال کے خلاف کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنانے میں ناکام نظر آئے۔ اسلیئے علیحدہ رہ کر ہر تنظیم ریاستی فورسز کا آسان نشانہ بھی بنتا رہا اور نقصان اٹھاتا رہا۔
اس بیچ ان بلوچ تنظیموں کے اختلافات اس حد تک پہنچ گئے کہ بلوچ لبریشن آرمی اور اسی سے ٹوٹ کر جدا ہونے والے یونائیٹڈ بلوچ آرمی میں خانہ جنگی چھڑگئی اور ایک دوسرے کے خلاف طاقت کا آزادانہ استعمال ہونے لگا۔ اسی طرح بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے بیچ بھی ایک سرد جنگ کی سی کیفیت رہی۔ یہ صورتحال گذشتہ سال اس وقت انتہائی گھمبیر ہوگئی جب بلوچ لبریشن آرمی اندروںی اختلافات کے باعث ایک بار پھر دو گروہوں میں بَٹ گئی ہے۔ گو کہ تنظیم کے ٹوٹنے کا کوئی باقاعدہ اعلان نظر نہیں آتا لیکن دونوں گروہوں کی جانب سے یہ دعویٰ نظر آتا ہے کہ وہ حقیقی بلوچ لبریشن آرمی ہیں۔
انہی دعووں کے بابت، ایک طرف ہمیں بلوچستان میں بی ایل اے کے سینئر متحرک کمانڈران نظر آتے ہیں جو جیئند بلوچ کے نام سے میڈیا سے رابطے میں ہیں اور بادی النظر دوسری جانب بی ایل اے کی لندن میں مقیم سربراہ ہیں جو آزاد بلوچ سے میڈیا میں رابطے ہیں۔
بلوچ لبریشن آرمی کے حالیہ بحران کے بعد بلوچ آزادی پسند حلقوں میں بہت سی چہ میگیوئیاں ہوئیں اور کافی مایوسی کا اظہار ہوا، بہت سے قنوطی تجزیہ نگار اسے تحریک کے انجام سے بھی تعبیر کرنے لگے لیکن اس بحران کے بعد سے بلوچ تحریک آزادی سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے اچھی خبریں آرہی ہیں۔
بلوچ لبریشن آرمی کے اندروںی بحران کے کچھ ہی عرصے بعد ایسی اطلاعات آنے لگیں کہ بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے بیچ جاری سرد جنگ کا خاتمہ کیا جارہا ہے اور باقاعدہ رابطے بحال ہوگئے ہیں اور بہت جلد ہی بی ایل اے کے ترجمان جئیند بلوچ نے میڈیا میں بلوچ لبریشن فرنٹ کے ساتھ اشتراکِ عمل کا اعلان کردیا، یہ خبر بلوچ آزادی پسندوں کیلئے بہت عرصے بعد ایک اچھی خبر تھی اور بہت جلد بلوچستان سے بھی اطلاعات آنے لگیں کے ان دونوں تنظیموں کے کئی مقامات پر کیمپ ایک ہونے لگے ہیں اور کئی مشترکہ کارائیاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔
مشترکہ کاروائیوں کی ایک کڑی گذشتہ ہفتوں بلوچستان کے علاقے زھری تراسانی میں نظر آیا جب بلوچ لبریشن آرمی کے جھالاوان زون کے کمانڈر ضیاالرحمان عرف دلجان اور بلوچستان لبریشن فرنٹ رخشان زون کے کمانڈر نورالحق عرف بارگ ایک فوجی آپریشن کے دوران محاصرے میں آگئے اور دونوں نے مل کر اپنی آخری گولی سے اپنی جان دے دی۔ اسی بابت بلوچستان لبریشن فرنٹ نے ایک بیان میں کہا ” بی ایل ایف اور بی ایل اے نے ناصرف اشتراک عمل کا عملاً ثبوت دیا ہے بلکہ یہ لفاظی اور اخباری بیان تک محدود نہیں۔ اس کی واضح مثال بی ایل ایف اور بی ایل اے کے سرمچاروں کا ایک ہی مورچہ میں دشمن کے خلاف جنگ اور شہید ہونا ہے”
بی ایل ایف اور بی ایل اے کا یہ اشتراکِ عمل بلوچ آزادی پسند سیاست میں بالغ نظری کی طرف ایک اشارہ تھا اور ایک نیا رجحان تھا، اسی رجحان نے بہت جلد ہی ایک اور اہم اور دلچسپ خبر کو جنم دیا، جو بلوچ آزادی پسند سیاست سے تعلق رکھنے والوں کیلئے انتہائی خوشی کی خبر تھی، جب بلوچ ریپبلکن آرمی، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور لشکرے بلوچستان نے بھی اشتراکِ عمل کا اعلان کردیا۔
اس نئے اتحاد کے حوالے سے بلوچ ریپبلکن آرمی کے ترجمان سرباز بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” بی آر اے ، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور لشکر بلوچستان کی مرکزی قیادت کے درمیان کئی ملاقاتوں اور نسشتوں کے بعد اشتراک عمل پر اتفاق ہوگیا ہے۔ آج سے تینوں تنظیمیوں کے درمیان جنگی کاروائیوں میں اشتراک کے ساتھ ایک دوسرے سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔”
اسی رجحان کا سلسلہ بڑھتا ہوا ہمیں بالآخر اس بڑے خبر تک بھی آکر رکتا نظر آیا جب بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جئیند بلوچ اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے ترجمان مرید بلوچ نے بے ایل اے اور یو بی اے کے مابین جاری چار سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ یہ بلوچ آزادی پسند سیاست میں ایک بہت بڑے خبر کی حیثیت رکھتا ہے، گو کہ اس جنگ میں اتنا جانی و مالی نقصان نہیں ہوا تھا لیکن سیاسی لحاظ سے بلوچ عوام میں اس آپسی جنگ کے باعث بدگمانی پھیلی تھی اور اسکے منفی سیاسی اثرات نکلے تھے۔
اس حوالے مشترکہ بیان کے مندرجات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہیں کیونکہ اس بیان سے یہ ظاھر ہوتا ہے کہ بی ایل اے کا ٹوٹ کر یونائیٹڈ بلوچ آرمی بننا اور پھر یونائیٹڈ بلوچ آرمی سے چار سالہ جنگ کی وجہ وہ رویے اور لوگ ہیں، جو حالیہ بی ایل اے کے بحران کے ذمہ دار بھی ہیں، کیونکہ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ بی ایل اے جئیند بلوچ کے خودمختارانہ کام کرنے کے ساتھ ہی بی ایل ایف کے ساتھ سرد جنگ کا ناصرف خاتمہ ہوجاتا ہے بلکہ اشتراکِ عمل بھی روبہ عمل ہوجاتا ہے اور اسی طرح یوبی اے کے ساتھ چار سالہ خانہ جنگی صلح پر اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ یہ اس بات کا غماز ہیں کہ یہ مسائل قابلِ حل تھے۔
اس حوالے سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کے دوسرے اندرونی دھڑے آزاد بلوچ نے تو بی ایل ایف کے ساتھ اشتراکِ عمل کے امکان کو مسترد کردیا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ یو بی اے سے خانہ جنگی کے اختتام کے بابت کیا ردعمل دیتی ہے۔ کیا وہ بھی خانہ جنگی کے خاتمے کا اعلان کرتی ہے، یا وہ اب بھی اس خانہ جنگی کو جاری رکھنے پر بضد رہتی ہے۔
اس پورے صورتحال میں قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ بلوچ آزادی پسند سیاست میں نئے رجحانات بالغ نظری کا ثبوت دے رہے ہیں۔ اب اس حوالے سے ریاست پاکستان کی نئی پالیسیاں دلچسپی کا باعث ہونگی۔