از سرنو صف بندی – نادر بلوچ

442

دنیا میں جہاں جہاں بھی انسانی ترقی کے لیے اداروں کا قیام عمل میں آیا وہی پر انتظامی طور طریقے راہج ہوتے گیے ہیں۔قوانین سے اداروں کو چلانے میں آسانیاں پیدا کی گہیں تاکہ اداروں کی کارکردگی بہتر بنائ جاسکے۔اداروں کو عمل اور مقاصد کے مطابق دو اہم اقسام میں شناخت دی گی۔ ذاتی یا۔مخصوص افراد کو مالی فاہدہ دہنے والی اداروں کو جنکو کمپنی کا نام دیکر منافع بخش اداروں کا نام دیا ہے۔

دوسری جانب ایسے ادارے بھی انسانی سماج کا حصہ بنے جنکا مقصد اور کارکردگی عوام کی خدمت کے لیے ہوں ایسے اداروں کو غیر منافع بخش ادارے کہتے ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیمیں، سیاسی و سماجی تنظیمیں یہ سب غیر منافع بخش تنظیمیں ھوتی ہیں جنکا مقصد صرف اور صرف عوامی فلاح و بہبود ہوتی ہے۔انکا اپنا ایک ساخت یا ڈھانچہ ہوتی ہے جسکو مقصد کے حصول و ضروریات کے مطابق ترتیب دی جاتی ہےتاکہ تنظیم کو آسانی ہو اور تنظیم مستعد ہو۔ جس طرح سے مقصد اور تنظیمی ضروریات ہوتی ہیں اسی پیمانے پر تنظیمی عمل کو موثر اور برقرار رکھنے کےلیے تنظیمی ساخت پر خاص توجہ دی جاتی ہے اس میں تنظیم کی ذمہ داریاں مختلف لوگوں میں انکی صلاحیتوں کو مد نظر رکھ کر اختیارات اور زمہ داریاں تقسیم کی جاتی ہیں۔یا دیگر ذیلی ادارے تشکیل دے کر تنظیمی پروگرام پر عمل کیا جاتا ہے کسی بھی تنظیم کی کارکردگی کا زیادہ انحصار سب سے پہلے پالیسی ساز ادارہ پر ہوتی ہے کیوں کہ یہ ایک ایسا ذیلی ادارہ ہے جس سے تنظیم کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پالیسی بنتی ہے۔جیسے انسانی جان میں دماغ ہی فیصلہ کرتی ہے تو باقی اعضاء کام کرتی ہیں پالیسی ساز ادارہ کا کام بھی بلکل ایسا ہی ہے اس لیے ایسے ادارہ میں جن کارکنوں کو شامل کیا جاتا ہے جو تخلیق اور تحقیق کے ماہر ہوں اسکی کی بنیاد پر پالیسی بناہیں۔ترقی یافتہ ممالک اب اس کام کے لیے تھینک ٹھینک کا ادارہ بنا کر ان سے اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے مشورہ لیتی ہیں جو خالصتن تحقیق و تجربات پر مبنی ہوتی ہیں۔ تنظیم کی عمر کی کوئی حد نہیں ھوتی اسی لیے اسکی نشونما اور کارکردگی کو ہمیشہ ساہنسی اصولوں کے مطابق پرکھا جاے اور وقتاٰٰ” فوقتا” اس کی انتظامی پالسیوں کو رد و بدل کے عمل سے گزارا جاے تاکہ کمی بیشی و کمزوریوں پر قابو پاکر تنظیمی کارکردگی کو بڑاھایا جاسکے۔

بلوچ قومی تحریک شروع سے لیکر آج تک مختلف ادوار میں سخت ترین حالات کا مقابلہ کرکے سن دو ہزار سے قومی تحریک میں نہی تنظیموں کے نام وجود میں آنے لگے اور ساتھ ہی عوامی حمایت میں اضافہ ہونا شروع ہوا جس سے قومی آزادی کی تحریک ایک نہے جوش اور ولولہ کے ساتھ آگے بڈھنے لگی۔بلوچ قومی تنظیموں کا سامنا ریاستی اداروں سے تھی جہاں سیاسی اور مسلح مزاحمتی تنظیمیں ریاستی اداروں کے سامنے بلوچ قوم کی سیاسی و سماجی مفادات کے لیے وطن کی دفاع میں مشغول ہوے ۔ جد و جہد میں شامل تمام تنظیمیں اپنی بساط کے مطابق کوشیش کرتی رہیں ، کچھ تنظیمیں سیاسی اتحاد بنانے میں کامیاب ہوے اور عوامی حمایت حاصل کرنے میں بھی کسی حد تک کامیاب ہوے۔دوسری جانب ریاست اور اسکے ادارے بلوچ قوم کی اس شعوری جد و جہد سے خوفزدہ تھیں اس لیے ریاست نے حواس باختگی میں سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کو راستے سے ہٹانے کے لیے قتل عام شروع کیا ۔ یہ ایک ایسا موقع تھا جب سیاسی تنظیموں کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے پالیسی ساز اداروں کی ضرورت تھی تاکہ فوری طور پہ ریاستی سفاکیت اور غیر سیاسی حربوں کا ادراک کر کے خود تنظیموں اور کارکنوں کو محفوظ بنایا جاتا۔ یہ بات تو تہہ ہے کہ آزادی و انقلاب کے لیے قربانیاں دینی پڑھتی ہیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ مضبوط و موثر تنظیمیں ہی قومی آزادی کو متحرک فیصلہ سازی اور حکمت ء عملی سے ہی ممکن بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ انقلابی تنظیم کا مطلب ہی یہی ہے کہ متواتر اپنی تنظیم کی انتظامی اصول و ضوابط کو تبدیل کرے تاکہ دشمن و سرکار اس کو اپنی بنای ہوئی پالیسیوں میں پھنسا نہ لیں۔ اس سے تنظیم کو خود کی کمزوروں کو دور کر کے وقت و حالات کے مطابق تبدیلی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ کی دشمن کی جانب سے کسی بھی حکمت ء عملی کا جواب دیا جا سکے۔

از سر ء نو صف بندیوں کی ضرورت اس لیے پڑھتی ہے کیوں کہ بعض اوقات جب ادارے یا تنظیم اپنا ڈھانچہ یا طریقہ کار وضع کرنے کے بعد کارکن اور لیڈر شیپ مقصد کے حصول میں اس قدر مگن ہو جاتے کہ انکی نظر تنظیمی کارکردگی اور ضروریات پر سے ہٹ جاتی ہے یا انکو چھوٹے مساہل سمھجھ کر نظر انداز کر دی جاہیں تو اسکا خمازہ تنظیم اور تحریک تک کو جھیلنا پڑ سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ پالیسی ساز اداروں کہ ذریعے تنظیمی معملات پر نظر رکھی جاے تاکہ کسی بھی غلطی یا کوتاہی کا ادراک ممکن ہو اور مقصد کے حصول میں کوی روکاوٹ پیدا نہ ہو۔ پالیسی ساز ادارے خود محسوس کرتے ہیں کہ ادارے کی ڈھانچہ کو تبدیل کر کے کمزوری کو دور کر کے مزید طاقت حاصل کی جاسکے۔

بلوچ قومی محاذ پر موجود تنظیمیں جس طرح ریاستی ظلم و جبر کے خلاف مظبوط ارادوں اور پختگی کے ساتھ صف آراء تھیں شدید جانی و مالی نقصان کے باوجود دو دہاہیوں سے جاری اس جد و جہد میں کامیاب ہوے ہیں ساتھ ساتھ اپنی لیڈر شپ اور عملی کارکنوں کی قربانیاں دی ہیں جسکی وجہ سے آج ہر تنظیم میں اس کمی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔دوسری جانب بعض تنظیمیں انتشار اور ٹوٹ پوٹ کا شکار ہو کر اپنا انتظامی ڈھانچہ برقرار رکھ نہیں سکے ہیں جسکی وجہ سے دونوں جانب ایسی تنظیموں کے لیے مشکلات زیادہ ہوئی ہیں اسکے لیے ازسرءنو صف بندیوں کی ضرورت ہے تاکہ تنظیموں کی انتظامی ڈھانچہ کو از سرءنو ترتیب دیکر مقصد کے حصول کو آسان بنایا جاسکے۔اگر ہم ان تمام تنظیموں اور پارٹیوں کی مقصد کو یکجا کر کے دیکھیں تو سب ہی کا مقصد بلوچ قومی تحریک کو اپنی منزل تک پہنچانا ہے۔اور یہ سب مل کر ہی ایک قومی تحریک بن رہی ہیں جیسے انکی کسی ایک کی کامیابی اور طاقت کل تحریک کی طاقت بنتی ہے اسی طرح ان میں سے کسی ایک اکاہی کی کمزوری کل تحریک پہ پڑھتی ہے۔لہزا اس وقت قیادت کو مل کر اس بابت میں فیصلہ کن انداز میں تنظیمی انتظامات کا جاہزہ لینا چاہیے ۔ ہر تنظیم کے الگ الگ مساہل اور مشکلات یکساں بھی ہو سکتی ہیں لیکن پالیسی ساز ادارے اگر اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کریں تو ناممکن کو ممکن میں بدلنے کے لیے وقت نہیں لگتی۔ ادارہ یا تنظیم اسی لیے موثر ہوتے ہیں کیونکہ انکے ذریعے سے تمام وساہل جو مقصد کے حصول کے لیے درکار ہوتی ہیں انکو تنظیمی مشینری میں یکجا کیا جاتا ہے تو سب مل کر اسکو حاصل کرنے میں لگ جاتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام تنظیمیں اپنی پالیسی ساز اداروں میں از سرے نو صف بندی کو ایجنڈا بنا کر اسکی ممکنات پر بحث و مباحثہ کریں تاکہ تنظیم یا پارٹی کی تمام اداروں کی جانچھ پڑتآل کر کے کمی بیشیوں کو دور کر کے تازہ دم صف بندیاں کی جاہیں تاکہ تحریک کو مزید متحرک کرنے میں مدد مل سکے اور مقصد کا حصول ممکن ہو۔

@nadirbaloch555