سائیں جی ایم سید – انقلابی ورثہ سلسلہ

1802

انقلابی ورثہ

سائیں جی ایم سید اور سندھی نیشنلزم

تحریر : اصغرشاہ

دی بلوچستان پوسٹ

سندھ کے معتبر قوم پرست رہنما اور جیئے سندھ ہلچل کے بانی سید غلام مرتضیٰ شاہ المعروف جی ایم سید 17جنوری1904 کو دریائے سندھ کے کنارے پر واقع تاریخی شہر سن ضلع دادو/اب ضلع جامشورو میں پیدا ہوئیں۔

ابھی 4سال کے ہوئے تو ان کے والد سید محمد شاہ کو خاندانی دشمنی کی بنا ء پر قتل کردیا گیا جس کے بعد ان کی تعلیم تربیت اور نگہداش خاندان کی عورتوں نے کی۔ کیونکہ گھر میں وہ اکیلا لڑکا تھا اس وقت سندھ پر انگریز کا قبضہ تھا اور خاندان کی زرعی زمین کورٹ آف وارڈس (Court of Wards) میں دی گئی تھی اور ماہانہ وظیفہ مقرر کیا گیا تھا، انہوں نے ابتدائی تعلیم سن میں حاصل کی۔

خاندان میں اکیلا لڑکا ہونے کی وجہ سے انہیں کسی دوسرے اسکول یا کالج بھیجنے کے بجائے سن میں ہی رکھا گیا اور ماہراساتذہ کی نگرانی میں انہوں نے مدرسے میں تعلیم حاصل کی وہ سندھی، اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتے تھے انہوں نے اپنی سماجی و سیاسی زندگی کا آغاز خلافت تحریک سے کیا اور گاندھی جی سے متاثر ہوکر کھادہی پہننا شروع کی بعد ازاں کراچی لوکل بورڈ کی سیاست میں داخل ہوئے اور کراچی ضلع کے نائب صدرمنتخب ہوئیں، اس دوران انہیں انگریز افسروں کا سامنا کرنا پڑا، بعد میں وہ انڈین نیشنل کانگریس سے متاثر ہوکر کانگریسی رہنما بنے۔

1935 میں انڈیا ایکٹ کی منظوری کے بعد اس ایکٹ کے تحت جب سندھ کو بمبئی پذ یزیڈنسی سے الگ کیا گیا اور سندھ کی اسمبلی قائم کی گئی تو 1936 کی الیکشن میں وہ سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئیں۔ 1942 میں سندھ کے وزیر تعلیم بھی رہے۔ اس دوران انہوں نے کچھ سیاسی اختلافات کی بناء پر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت کی اور سندھ میں مسلم لیگ کو متعارف اور منظم کیا وہ سندھ اسمبلی میں کنگ میکر تھے۔ان کے فیصلوں سے وزارتیں ٹوٹتی اور بنتی تھیں۔ 1946 میں محمد علی جناح اور آل انڈیا مسلم لیگ سے اختلافات کی بنیاد پہ قیام پاکستان سے فقط ایک سال پہلے ا نہوں نے مسلم لیگ کو خیر باد کہا 1947 میں برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان کے بعد خان عبدالغفار خان سے مل کر پاکستان میں پہلی بار حزبِ اختلاف پارٹی کی بنیاد ڈالی انہوں نے دو قومی مذہبی نظریے کو چیلنج کیا اور سندھی قوم پرستی کی بنیادوں پر کام کرنا شروع کیا وہ سندھی قوم پرستی کے بانی اور رہبر سمجھے جاتے ہیں انہوں نے 25 اپریل 1995 کو ایک قیدی کی حیثیت میں انتقال کیا انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 1992 میں انہیں ضمیر کا قیدی (Prisoner of Conscience) قرار دیا۔ پاکستان سے پہلے یا اس کے بعد وہ پاکستان کے سب سے زیادہ عرصے تک جیل میں رہنے والے سیاستدان تھے۔ ان کی قید یا نظر بندی کی کل معیاد 32سال تھی۔

1904 سے 1995 تک 91 سالوں کی زندگی میں سائیں جی ایم سید مختلف تحریکوں کے روح رواں رہے ہم ان کے 91 سالہ زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا حصہ 1917 سے 1946 تک جس میں انہوں نے خلافت تحریک، انڈین نیشنل کانگریس، آل انڈیامسلم لیگ، سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی تحریک، سندھ ہاری کمیٹی کا قیام، سندھ ادبی بورڈ کا قیام، سندھ یونیورسٹی کا قیام اور بھٹ شاہ کلچرل سینٹر جیسے مختلف علمی ادبی اور سیاسی کام کیے۔

دوسرا دور 1946 سے 1971 تک، جس میں انہوں نے دو قومی مذہبی نظریے کی مخالفت، مضبوط مرکز یا وفاق کی مخالفت، آمریت کی مخالفت کی اور جمہوریت، سیکولرزم اور سندھی قوم پرستی کی داغ بیل ڈالی۔

تیسرا دور 1972 سے 1995 تک رہا جس میں انہوں نے سندھو دیش کی آزاد اور خود مختیار ریاست کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کے کارکنوں اور عوام کی سطح پر پرچار اور سیاسی تعلیم کی اور آخری دم تک اپنے پروگرام پر اٹل رہے۔

کچھ لوگ سائیں جی ایم سید کے پہلے دوسرے اورتیسرے دور کے حوالوں سے مغالطے کا شکار ہیں لیکن ہم اس بات پر بالکل واضح ہیں کہ ہر دور میں سائیں جی ایم سید کا بنیادی مقصد سندھ اور سندھ کی عوام کی ترقی، آزادی اور خوشحالی تھا۔ وہ بڑے پائے کے سیاسی دانشور تھے۔ جن کی 55 کے قریب کتابیں لکھی ہوئی ہیں جن کے اردو اور انگریزی میں کئی تراجم بھی چھپ چکے ہیں۔
ایک مغالطہ یہ بھی ہے کہ سندھی قوم پرستی کی بنیاد سائیں جی ایم سید نے ڈالی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان سے پہلے سندھ میں سندھ پرست کوئی تحریک تھی ہی نہیں حالانکہ تاریخ میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے جب انگریزوں نے 1843 میں سندھ پر حملہ اور قبضہ کیا تو انگریز کی طاقتور فوج بھی سندھ کو ایک ہی جنگ میں فتح نہ کرسکی۔ تالپر حکمرانوں نے دو بار ہ مقابلہ کیا اس کے بعد تھر پارکر کے روپلو کولھی نے تقریباً 15 سال گوریلا جنگ جاری رکھی۔ اس کے بعد 1880، 1890 اور 1940 میں بھی حُرگوریلا تحریک، انگریزوں کی مخالفت اور سندھ کی آزادی کے حوالے سے چلی۔ جس کا مشہور نعرہ تھا “وطن یا کفن ” آزادی یا موت۔

تقسیم ہند کے وقت بھی سندھ کی آزاد ریاست کا موقف موجود تھا۔ جس کے علمبردار حشوکیول رامانی، شہیداللہ بخش سومرو، شیخ عبدالمجید سندھی، محمد امین کوسو، شہید سورہیہ بادشاہ، علامہ آئی آئی قاضی، مولانا عبیداللہ سندھی وغیرہ آزاد سندھ کے علمبردار تھے۔ اس لحاظ سے سائیں جی ایم سید نے جب سندھی قوم پرستی کی بنیاد ڈالی تویہ محظ ایک دانشور کا خیال نہیں تھا بلکہ انہوں نے سندھ کی ہزار ہا سالہ تاریخ سے ثابت کیا کہ شہید مہاراجہ ڈاہر سے لیکر شہید دودو سومرو، شہید مخدوم بلاول، شہید دولہہ دریا کان اور شہید شاہ عنایت جیسے قومی ہیروز نے سندھ کی آزادی کے لئے بڑی بڑی تحریکیں چلائیں۔

تقسیم ہند کے وقت تین نقطہ نظر تھے ایک آزاد اکھنڈ بھارت کا نظریہ تھا دوسرا مذہبی بنیادوں پر دو حصوں میں برصغیر کی تقسیم کا نظریہ تھا اور تیسرا تاریخی قوموں کی آزاد ریاستوں کا نظریہ تھا لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر تیسرا نظریہ کمزور رہا اور برطانوی سامراج جاتے جاتے برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم اور بانٹ کرکے چلے گئے۔

سائیں جی ایم سید کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے “یورپین ورلڈ آرڈر” کے بناء پرجو جدید قومی ریاستوں کا نظریہ پھلا پھولا اس بنیاد پر انہوں نے سندھی قوم پرستی کے نظریے کو اس کے ساتھ ہم آہنگ کیا اور دوسرا کمال یہ تھا کہ وہ اپنے نظریات پر آخری دم تک ڈٹے رہے۔