سبھاش چندر بوس 1897 ء کو کٹک میں پیدا ہوئے، آپ کے والد رائے بہادر جانکی ناتھ بوس کئی سال تک کٹک میں سرکاری وکیل رہے۔ ان کے آٹھ بچوں میں سے سبھاش چند ربوس، ڈاکٹر مست چندربوس اور ڈاکٹر سینل چندر بوس کے نام خاص طور پر قبل ذکر ہیں۔ انکے والد ایک نہایت اوبچے اور متمول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کے خاندان کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے یورپ بھیجا۔ 1913 میں سبھاش چندر بوس کٹک کے ایک ہائی سکول سے میٹریکولیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد پریزیڈنسی کالج کلکتہ میں داخل ہوئے۔ ان دنوں وہاں کا رجحان زیادہ تر سوشل سروس کی طرف تھا اور آپ اپنا وقت اپاہجوں کی سیوا اور دکھیا بندوں کے مدد کرنے میں مصروف کیا کرتے تھے جب آپ ایف۔اے میں تعلیم پارہے تھے تو آپ کی زندگی نے پہلی بارپلٹاکھایا۔ ہندوستان کے مہا پرشوں اور مہاتماؤں کے جیوں چرتر کا آپ پر گہرا اثر پڑچُکا تھا۔ اچانک ایک روز آپ نے دنیا کو ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا اور چپ چاپ گھر بار اور دنیاوی سُکھ چھوڑ کر گوروکی تلاش میں گھر سے نکل کر ہردوار کا رُخ کیا۔ ان حالات میں اگر یہ کہاجائے کہ آپ پیدائشی باغی تھے تو اس میں چنداں مبالغہ نہ ہوگا۔ بچپن میں ہی دنیا کے بندھنوں کو کات پھینکنے والا سبھاش اگر باغی نہیں تو اور کیا کہلاسکتا ہے؟ وہاں سے آپ بنارس، برندابن اور دیگر متبرک مقامات کی یاترا پر روانہ ہوگئے۔ اس دوران میں آپ نے بہت سے سادھوؤں اور نام نہاد مہاتماؤں سے ملاقات کی۔ لیکن ان کی طرز زندگی انہیں پسند نہ آیا۔
یہ سادھور اور مہاتما نہایت شان وشوکت سے رہتے تھے اور گوشہ نشینی کی آڑ میں لوگوں کو بے وقوف بناکر خود اپنا تمام وقت عیش و عشرت میں گزارتے تھے بھلا ایسے پاکھنڈی سادھو سبھاش جیسے سچے متلاشی کی زندگی پر کس طرح اثرانداز ہوسکتے تھے، چنانچہ بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ انسان دنیا کی کشمکش میں حصّہ لیتے ہوئے ہی خدمت خلق سے اپنی زندگی کے مشن کو پورا کرسکتا ہے، دنیا کی برائیوں کو دیکھ کر دنیا کو ترک کرنا بزدلوں کا کام ہے اور انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ دنیا ترک کرنے کی بجائے دنیا کی جدوجہدمیں حصہ لیتے ہوئے تمام برائیوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرکے اپنے زندگی سپھل کرے۔
سبھاش بوس ڈھونگی ساھوؤں اور پاکھنڈی مہاتماؤں کے چنگل سے نکل کر پھر اپنے گھر لوٹ آئے اور 1914میں کالج میں داخل ہوگئے۔ 1915میں آپ نے اول ڈویژن میں ایف۔ اے کا امتحان پاس کرلیا اور بی۔ اے میں داخل ہوئے ان دنوں ایک انگریزسٹر روٹن پریزیڈنسی کالج کلکتہ میں پروفیسر تھے۔ اس پروفیسر کو ہندوستانی کلچر اور تہذیب و تمدن سے انتہائی نفرت تھی۔ وہ اکثرطلباء کے احساسات و جذبات کو مجروح کرنے سے باز نہ آتے تھے۔ سبھاش بوس ان کے گندے خیالات سن کر آگ بگولہ ہوجایا کرتے تھے۔ آپ نے اس انگریز پروفیسر کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا اور تمام طلبا کو ہڑتال کی ترغیب دی لیکن جب اس بددماغ پروفیسر پر ہڑتال کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ تو سبھاش اس کی مرمت کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ایک روز اسے پیٹ ڈالا اس پر آپ کالج سے نکال دیئے گئے۔
دو سال بعد 1917میں کلکتہ یونیورسٹی نے آپ کو پھر کالج میں داخل ہونے کی اجازت دے دی ۔آپ سکاؤٹس چرچ کالج میں داخل ہوگئے اور بی۔اے کا امتحان بھی اول ڈویژن میں پاس کرلیا۔ پھر 1919میں ولایت چلے گئے۔ وہاں آپ انڈین سول سروس کے مقابلے میں شریک ہوئے اور بہترین پوزیشن میں کامیابی حاصل کرلی۔ اب آپ کے لیے دنیاوی سُکھ و عیش و آرام کا راستہ کھل گیا کیونکہ انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ بہترین سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے تھے۔ آپ چاہتے تو کسی ضلع کا کمشنر بن کر لاکھوں روپیہ کمالیتے لیکن قدرت نے ان کے دل میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیاتھا اور ولایت کے سفر نے تو ان کے سینے میں آزادی کی روح پھونک دی تھی۔ ایک طرف بڑے بڑے سرکاری عہدے انہیں جاہ و حشمت اور دنیاوی شان و شوکت کا پیغام دے رہے تھے دوسری طرف غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی بے بس اور بے کس بھارت انہیں دیش خدمت کا سندیشہ دے کر مصائب اور کٹھن زندگی کی راہ کھارہی تھی۔ یہ ذہنی کشمکش کافی دیر جاری رہی ایک طرف دنیاوی سُکھ اور عیش آرام145 دوسری طرف جیل کی تنگ وتاریک کوٹھڑی اور ہتھکڑیوں کی جھنکار۔
آخر اس کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ سبھاش بوس کی زندگی نے دوسری بارپلٹاکھایا اور غیر ملکی حکمرانوں کی طرف سے پیش کردہ سرکاری عہدوں کی نسبت غلامی کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے بھارت ورش کی کشش زیادہ قوی ثابت ہوئی اور آپ نے نہایت سرگرمی سے سیاسیات میں حصّہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے اُجڑے ہوئے دیش کو غیروں کے آہنی پنجرے سے نجات دلانے کا تہیہ کرلیا۔
ان دنوں پہلی عالمگیر جنگ ختم ہوچکی تھی، جنگ کے دوران برطانوی حکومت نے ہندوستانیوں سے جو وعدے کئے تھے، جنگ کے خاتمہ پر انہیں بھلا دیا گیا۔ حکومت کے خلاف ہندوستانیوں کے دلوں میں غم وغصے کی آگ بھڑک چکی تھی۔ اب انہیں حکومت برطانیہ کی نیک نیتی پرشک ہونے لگا۔ جلیانوالہ باغ امر تسر میں ہزاروں پرامن اور نہتے ہندوستانیوں کے قتل عام سے ملک کے طول وعرض میں بغاوت کے شعلے بھڑک اُٹھے۔ اس اثناء میں انڈین نیشنل کانگریس میں بھی رجعت پسندوں کا اثر زائل ہوچکا تھا اور لوگ یہ سمجھ چکے تھے کہ حکومت سے محض درخواستیں کرنے اور پروٹسٹ کے ریزولیوشن پاس کرنے سے ملک کو آزادی نصیب نہ ہوگی۔
1920میں انڈین نیشنل کانگریس کے ناگپور سیشن میں ہندوستانیوں نے عملی کاروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت سے عدم تعاون کا ریزولیوشن پاس کردیا تھا۔ جلیانوالہ باغ کے حادثے سے لوگوں کے جذبات اس قدر مشتعل ہوچکے تھے کہ رابندرناتھ ٹیگور نے سر کا خطاب ترک کردیااور وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر سرسنکرن نائر نے بطور پروٹسٹ کونسل کی ممبری ٹھکرا دی۔ کانگریس نے حکومت کے بہرے کانوں میں دیش کی صحیح آواز پہنچانے کے لیے عد م تعاون اور سول نافرمانی کی مہم شروع کردی اس پر ملک کے طول وعرض میں گاندھی کے فرمان پر لوگوں نے سرکاری خطابات ترک کردیئے، وکلاء عدالتوں سے نکل آئے، طلبا نے سکولوں کالجوں کا بائیکاٹ کردیا اور ہندوستان بھر میں وسیع پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوئیں۔
جونہی یہ تحریک شروع ہوئی، حکومت برطانیہ گھبراگئی، وائسرے ہند لارڈ ریڈنگ نے کانگریس کو گول میزکانفرنس کی دعوت دی لیکن گاندھی نے یہ کہتے ہوئے کہ جب تک جیلوں کے دروازے نہ کھولے جائیں گے کانگریس حکومت سے کوئی گفت و شنید نہ کرے گی۔ مصالحت کے لیے لارڈ ریڈنگ کی پیشکش ٹھکرادی۔ ان دنوں مسٹر سی۔آر داس بنگال کے بے تاج بادشاہ تصور کئے جاتے تھے۔ لوگوں کے دل میں ان کے لیے زبردست عقیدت و احترام تھی کہ لاکھوں بنگالی اُن کے ایک اشارے پر اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔
ان کی اپیل پر ہزاروں طلبا سکول اور کالج چھوڑ کر کانگریس کے جھنڈے تلے آگئے۔ سبھاش بوس بھلا ایسے نازک موقع پر کب خاموش رہ سکتے تھے۔ آپ انڈین سول سروس سے استعفٰی دے چکے تھے۔ اور سی۔آر داس کے ایک لیفٹنٹ کی حیثیت سے تحریک میں شامل ہوگئے۔ پہلے پہل آپ بنگال نیشنل کالج کے پرنسپل بنائے گئے پھر نیشنل والٹیر کور کے کمانڈر بنائے گئے اور اس حیثیت میں پہلی مرتبہ گرفتار کرکے چھ ماہ کے لیے جیل بھیج دیئے گئے۔ رہائی کے بعد آپ نے ریلیف کے کام میں سرگرم حصّہ لیناشروع کردیا۔ ان دنوں شمالی بنگال میں طغیانی سے لوگوں کا بھاری نقصان ہوا تھا۔ سیکرٹری بنگال ریلیف کمیٹی کی حیثیت سے آپ نے ہزاروں بے خانماں لوگوں کی امداد کی۔
1922میں آپ نے سی۔آر۔داس کے ہمران انڈین نیشنل کانگریس کے گیاسیشن میں شمولیت کی۔ کانگریس میں دودھڑے بن چکے تھے ایک کونسلوں سے فائدہ اُٹھانے کے حق میں تھا دوسرا کونسلوں کا بائیکاٹ کرنا چاہتا تھا۔ سی۔آر۔داس کونسلوں کے حامی تھے۔
انہوں نے اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سوراج پارٹی کی بنیاد رکھی ۔ سبھاش بوس نے ایک سچے پیروکی طرح اپنے سیاسی گرو سی۔آر۔داس کا ساتھ دیا اور الیکشن پروپیگنڈہ میں دن رات ایک کردیئے۔ بعد ازاں بوس سوراج پارٹی کے اخبار ھارورڑ کے چیف ایڈیٹر بنائے گئے اور اپریل 1924میں کلکتہ کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بن گئے۔ اس حیثیت میں انہیں ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ لیکن انہیں عہدے پسند نہ تھے وہ جلد اس راز کو بھانپ گئے کہکرسی نشین سیاستدان صحیح معنوں میں دیش کی سیوانہیں کرسکتے۔ یہ عہدے اور ملازمتیں تو صرف ابن الوقت سیاست دانوں کو ہی
اپنے جال میں پھنسا سکتی ہیں۔
چنانچہ سبھاش بوس نے استعفیٰ دے دیا۔ 1924 ء میں بنگال میں پھر سخت گیری کا دور شروع ہوا۔ حکومت سوراج پارٹی کی سرگرمیوں سے گھبرااُٹھی تھی۔ اسے اس بات کا احساس ہوا کہ اگر بنگال میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہروں کو بند نہ لگایا گیا تو حالات خطرناک صورت اختیار کرجائیں گے۔ تقسیم بنگال کے دنوں میں بنگالیوں کے جوش وخروش،قربانی اور جذبہ حب الوطنی کی صدا ابھی تک حکومت کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ اس لئے احتیاطی اقدام کے طور پر حکومت نے بنگال آرڈی نینس پاس کردیا۔ اس آرڈی نینس کے روسے حکومت کسی کو محض شبہ کی بناء پر مقدمہ چلائے بغیر نظر بند کرسکتی تھی۔ اس آرڈی نینس کا پہلا وار سبھاش بوس اور سوراج پارٹی کے کئی دیگر سرکردہ لیڈروں پر ہوا۔ سبھاش پھر گرفتار کرلئے گئے اور بغیر مقدمہ چلائے نظر بند کردیئے گئے۔
سی۔آر۔داس نے ان گرفتاریوں کی سخت مذمت کی اور کلکتہ کارپوریشن میں منعقدہ ایک پروٹسٹ میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
اگر دیش سے محبت کرنا جرم ہے، تو میں بھی مجرم ہوں ۔ اگر سبھاش بوس مجرم ہیں تو نہ صرف میں بلکہ ہر بنگالی مجرم ہے۔
سبھاش بوس ہندوستان کے نوجوانوں کی مقبول ترین لیڈر بن چکے تھیں اور نوجوانوں نے گاندھی کی فرسودہ اور دقیانوسی طرز سیاست کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ 3جنوری 1930کو لاہور کے عوامی جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے سبھاش بوس نے کہا:چونکہ ہم اپنے بڑوں کی عزت کرتے ہیں۔ اس لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم ان کی اندھا دھند پیروی بھی کریں۔ ہمارے لیڈر نوجوانوں سے گھبراتے ہیں لیکن آزادی ہمیشہ نوجوانوں کے تحریک سے ہی آیا کرتی ہے ہندوستان کی نجات ہمارے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ترکی کے نوجوانوں نے کمال پاشا پیدا کیا روس نے لینن پیدا کیا۔ آپ میں سے بھی کئی لینن اور کمال پاشا بن سکتے ہیں بشرطیکہ آپ اپنے وطن کو آزاد کرانے کا تہہ کرلیں اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔
ہمارے رہنما اُلٹا نوجوانوں کی مذمت کرتے ہیں اور انہیں سمجھنے کی چنداں کوشش نہیں کرتے یہ نوجوان یہی ہیں جو لیڈر بناتے ہیں لیکن ہمارے نام نہاد لیڈروں نے کانگریس میں ہنگرسٹر ایک بند کرنے کا ریزولیوشن پاس کرکے اس اثر اور سبرٹ کا خاتمہ کردیا جو شہری جتندرداس کی موت اور بھوک ہڑتال نے پیدا کی تھی۔ وہ لوگ جو تھوڑا عرصہ پہلے نوجوانوں کی خطرناک طور پر سوچنے اور خطرناک طور پر عمل کرنے کی تعلیم دیتے تھے آج انہیں ساکن رہنے کی تعلیم کیوں دیتے ہیں۔ میں تو نوجوانوں کو وہی پُرانی تعلیم دوں گا۔ ہم مہاتما گاندھی یا دوسرے لیڈروں سے لیڈر شپ نہیں چھیننا چاہتے بلکہ اعتدال پسند لیڈروں کو بے نقاب کرکے ملک کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔
بوسیدہ لیڈرشپ
آخر کار کانگریس ہائی کمان کی ریشہ دوانیوں سے تنگ آکر سبھاش بوس نے اپنا راستہ منتخب کرلیا۔ انہوں نے ایک نئی پارٹی۔۔۔فاورڈ بلاک۔۔۔کی بنیاد رکھ دی۔ اس سلسلے میں اس نے کھلم کھلا اس رائے کا اظہار کیا کہ انہوں نے کر گاندھی بھگتوں کی جماعت گاندھی سیوا سنگھکے مقابلے میں اپنی جماعت بنائی ہے۔ اور انہوں نے یہ اقدام کانگریس ہائی کمان سے تنگ آکر کیا۔ اس بلاک کا مقصد ملک کے تمام انتہا پسندوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا۔ 8مئی کو منعقد ہ ایک عظیم الشان جلسے میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے اپنی نئی پارٹی اور کانگریس کے آفیشل بلاک میں اختلافات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
فاورڈ بلاک بھی کانگریس کے موجودہ پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے لیکن اصلاح کی طرح یا مارڈپٹ سپرٹ سے نہیں بلکہ انقلابی سپرٹ میں فاورڈ بلاک تمام اینٹی امپیرلسٹ عناصر کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہےگذشتہ کچھ عرصے سے کانگریس کا رجحان آئین پسندی کی طرف رہا ہے۔ خصوصاً جب سے آٹھ صوبوں میں کانگریس نے نظم و ضبط کی ذمہ داری لی ہے۔ رجحان تقویت پکڑگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس میں پیدا شدہ نئی ذہنیت گاندھی کی حقیقی سپرٹ یعنی پُرامن عدم تعاون کا گلاگھونٹ رہی ہے۔
فاورڈ بلاک کا پروگرام دوگناہ ہے۔ ایک طرف جہاں ہم کانگریس کے موجودہ پروگرام اور ذہنیت میں انقلابی سپرٹ پیدا کرنے کی جدوجہد کریں گے۔ وہاں ہمارا یہ بھی کام ہوگا کہ ملک کو آنے والے جنگ آزادی کے لئے تیار کریں۔
16مئی 1939کو اناؤ (یو۔پی) میں یوتھ لیگ کے ڈیلیگیٹوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کانگریس کے اعتدال پسند اور برسراقتدار لیڈروں کو وارننگ دی کہ اگر وہ آزادی کی طرف بڑھنے سے قاصر ہیں تو میدان سے ہٹ جائیں
۔ مزید کہا:
مارریت گروپ کہتا ہے کہ ملک میں عدم تعاون اور سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کے لیے فضاسازگار نہیں ۔ یہ سراسر جھوٹ ہے حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں میں انقلابی سپرٹ کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ نئے خون کا پُرانے سیاستدانوں سے مطالبہ ہے کہ یاتو وقت کی رفتار کے ساتھ چلیں یا ان لوگوں کے لیے میدان چھوڑ دیں جو ملک کی صحیح رہنمائی کرنا چاہتے ہیں۔ عوام کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہندوستان آئینی جدوجہد کے ذریعہ آزادی کی منزل پر نہیں پہنچ سکتا عہدوں کو قبول کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس وزراء میں انقلابی ذہنیت بتدریج ختم ہوجاتی جارہی ہے۔ اگر پریزڈنٹ ڈی ولیرا عہدے قبول کرنے بعد آئرلینڈ کی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو ہمارے وزراء کیوں نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس کا باگ ڈور ایسے اشخاص کے ہاتھ میں ہے جو انقلابی جدوجہد میں یقین نہیں رکھتے۔ انہوں نے آزادی حاصل کرنے کے لیے مصالحت اور سمجھوتہ کی جو پالیسی اختیار کی ہوئی ہے وہ انتہائی ضرر رساں ہے ایک طرف جہاں اس پالیسی سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ دوسری طرف اس پالیسی پر گامزن ہونے سے برطانوی امپیرئزم کے پیر مضبوط ہورہے ہیں۔ آج کل تمام دنیا پر جنگ کے خوفناک بادل چھارہے ہیں۔ لیکن اعتدال پسند کانگریس لیڈر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ وقت آنے پر بھی اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ جب تک کانگریس کی باگ ڈور بہتر ہاتھوں میں نہیں آتی۔ ہمارا دیش ہرگز ہرگز آزاد نہ ہوسکے گا وقت آنے پر گاندھی آزادی کے سوال کو حل کرنے کے لیے برطانوی گورنمنٹ سے گفت وشنید شروع کردیں گے۔ اس معاملہ میں مجھ میں اور گاندھی میں بعد المشرقین ہے۔
تاریخ کے اس نازک دور میں گاندھی سبھاش اختلافات کے متعلق غیر جانبدار اشخاص کی کیا رائے تھی۔ یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ لہٰذاہم ذیل میں ایک غیر جانبدار سیاستدان کا مضمون نقل کرتے ہیں:
ریڈیکل لڑنا چاہتے ہیںمہاتما گاندھی کہتے ہیں کہ فضا تشدد سے بھر پور ہے اس لئے میں اس وقت ستیاگرہ شروع نہیں کرسکتا۔ گاندھی کی اس پوزیشن سے ریڈیکل برہم ہورہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اب ہندوستان کے لیے امپرئلیزم پروار کرنے کاوقت ہے لیکن بوڑھا گاندھی رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ عمر کی زیادتی کے باعث یہ بوڑھا جرنیل اب بیکا ر ہوچکا ہے، اس کی جرات ختم ہوچکی ہے اب ملک کو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ملک بہت آگے بڑھ چکا ہے اور دیش کی بہبودی اسی میں ہے کہ اب گاندھی ازم ختم کردیا جائے۔ انتہا پسند گاندھی کو جواب دیتے ہیں تشدد کہاں ہے؟ ہمیں تو تشدد نظر نہیں آتا فضول بہانہ سازی نہ کرو۔ اگر کہیں تشدد ہے تو اسے نظر انداز کرو اگر ہم فضا کو تشدد سے پاک کرنے کا انتظار کرتے رہے تو ہمیں قیامت تک انتظار کرنا پڑے گا۔
10اکتوبر کو سبھاش بوس وائسرائے ہند سے دہلی میں ملے جب ملاقات کے بعد باہر نکلے تو صحافیوں کے ایک ہجوم نے انہیں گھیرلیا اور وائسرائے کے ساتھ بات چیت کے متعلق متعدددریافت کئے سبھاش بوس نے مسکراتے ہوئے کہا:
میں کبھی دو زبانوں میں نہیں بولا کرتا
11مارچ 1942کو آزاد ہند ریڈیو جرمنی سے سبھاش بوس کی ایک تقریر نشر ہوئی جس میں انہوں نے کہا:
میں کافی وقتوں سے یہ محسوس کررہا ہوں کہ ہماری دنیا نہایت خاموش و پُرسکون انداز سے تبدیل ہوتی جارہی ہے حالیہ سنگاپور کے شکست ، برطانوی سلطنت کی شکست کا پیش خیمہ ہے اور یقیناًیہ سب ایک نئے دور کے آغاز کے سوا کچھ نہیں۔ ایک نیا دور ہماری آزادی کا دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں خدا کے آگے سجدہ زن ہوجانا چاہیے کہ اس نے ہمیں بھارت کو آزاد کرنے کا ایک سنہری موقع عطا کیا۔
برطانیہ جو موجودہ دور میں آزادی و ترقی کا سب سے بڑا دشمن ہے اب یہ وقت ہے کہ خواب غفلت سے اُٹھا جائے اور اس دشمن کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ برطانوی غلبے کے خاتمے مطلب ظالمانہ نظام حکومت و تسلط کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ بھارت کی تاریخ کے ایک نئے سنہرے باب کا آغاز بھی ہے، برطانیہ کا ہم پر مسلط ہونا ہمارے لئے نہایت شرمناک اور ایک تذلیل بھرا فعل ہے۔ لہٰذا اپنی آزادی کے لئے ملنے والے اس سنہری موقع کے عوض ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چائیے۔
آج دنیا کے متعدد اقوام برطانیہ کے مخالف ہیں اور جوکئی اس کا رفیق ہے تو سمجھیں وہ ہمارا بھی دشمن ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس قوم کی رہنمائی کا دعویٰ کرتی ہے لیکن ان کی بے دلی سے انجام دیئے گئے اقدامات برطانوی لیڈروں کو یہ حوصلہ بخشتی رہی ہیں کہ وہ اپنی پُرانی حکمت عملی کو جاری رکھتے ہوئے محض ایسے بے معنی وعدے کریں کہ جو برائے نام ہوں اور جنہیں پرکھنے کی نہ تو انہیں کبھی عجلت ہو اور نہ ایفا کرنے کی حاجت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بھارت میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تہہ دل سے برطانوی سلطنت کا تسلط برقرار رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثریت اس کی ہے جو نہ تو برطانوی حکومت کی حکمرانی کو تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی اُن کے معاشی نظام کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اثناء میں ہم نے یہ طے کررکھا ہے کہ ہم اس وقت تک جنگ بندی نہیں کریں گے کہ جب تک ہم بھارت ماتا کو آزاد نہیں کرلیتے۔
آج دنیا میں ایک نئے دور آغاز ہونے جارہا ہے اور اس دور کا ایک سچا اور حقیقی محب وطن وہی ہے جو کہتا ہو کہ وہ اپنی تقدیر خود طے کرے گا۔ ہم بھی اپنی تقدیر خود طے کرنا چاہتے ہیں اور ہم تیارہیں ان تمام اقوام سے تعاون کرنے کو جو ہمیں ہماری آزادی حاصل کرنے میں مدد کرسکتے ہوں، مجھے اُمید ہے کہ برطانیہ کے خلاف اس جنگ میں مجھے اپنے ہندوستانی بھائیوں و بہنوں کی مدد حاصل رہے گی۔ اب یہ طے ہے کہ برطانیہ اپنے عیار اور سازشی پالیسیوں کے باوجود بھی بھارت کو ناکام نہیں کرپائے اور نہ ہی وہ بھارتیوں کو نیشنلزم (بھارتی قوم پرستی) جیسے ان کے عزیز نظریے سے روک سکے گا۔ بھار ت نے اب اپنی آزادی کے لئے لڑنا طے کر لیا ہے اور اب ہم نہ صرف آزاد ہونگے بلکہ اپنے ساتھ ایشیا حتیٰ کہ پوری دنیا کو آزاد کرلیں گے۔
حوالہ:
نام کتاب : نیتا جی
مصنف: چمن لال آزاد
(مختلف ابواب سے انتخاب)