سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یمن میں جاری سعودی اتحاد کی فوجی کارروائیوں میں گذشتہ سال کم از کم 700 بچے ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
اس رپورٹ کے بعد جمعے کو اقوام متحدہ نے یمن میں فوجی کارروائی کرنے والے سعودی اتحاد کو بلیک لسٹ کر دیا تھا۔
بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد جنیوا میں سعودی عرب کے سفیر عبداللہ المعلمی نے پریس کانفرنس میں اس رپورٹ کو غلط اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا ‘سعودی اتحاد ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ شہریوں کو فوجی کارروائی میں نقصان نہ پہنچے‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ
اس سے قبل اقوام متحدہ نے یہ کہہ کر کے سعودی اتحاد کو بلیک لسٹ کر دیا تھا کہ اس کی فوجی کارروائی میں یمن میں کم از کم 700 بچے ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
تازہ رپورٹ کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاض پر دباؤ ڈالا جائے۔
واضح رہے کہ پچھلے سال بھی سعودی اتحاد کو اقوام متحدہ نے کچھ عرصے کے لیے واچ لسٹ میں شامل کیا تھا۔ سعودی عرب کو واچ لسٹ سے اس وقت نکالا گیا جب مبینہ طور پر اس نے اقوام متحدہ کے پروگراموں کی مالی معاونت روکنے کی دھمکی دی تھی۔
اس دھمکی کے بعد سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کھلے عام شکایت کی کہ کچھ ممالک اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالتے ہیں تاکہ چھان بین سے بچا جا سکے اور یہ عمل ناقابل قبول ہے۔
تاہم سعودی عرب نے اس بات کی تردید کی کہ اس نے مالی معاونت روکنے کی دھمکی دی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے سعودی اتحاد کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے کہا کہ اتحاد نے بچوں کی حفاظت کے لیے چند اقدامات کیے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے ‘2016 میں سعودی اتحاد کی کارروائیوں میں 683 بچے ہلاک ہوئے اور مصدقہ اطلاعات کے مطابق اتحاد نے 38 سکولوں اور ہسپتالوں پر حملے کیے۔’
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بلیک لسٹ ممالک اور تنظیموں کی فہرست کے شائع ہونے سے قبل سعودی عرب کے شاہ سلمان سے فون پر بات کی۔ اقوام متحدہ نے کئی ماہ قبل اس فہرست کو سعودی عرب کے ساتھ شیئر کیا تاکہ گذشتہ سال کی طرح کشیدگی نہ ہو۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ اس بلیک لسٹ کا مقصد صرف بچوں کی مشکلات کو اجاگر کرنا نہیں ہے بلکہ تصادم والے علاقوں میں بچوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنا بھی ہے۔